ڈسپوزبل انفراسٹرکچر

تحریر : نمرہ فلک ۔۔۔
بدقسمتی سے پاکستانیوں نے ہمیشہ ہی معیارات پر سمجھوتہ کیا ہے پھر چاہے وہ معیارِ زندگی ہو ، معیار تعلیم ہو ، معیار صحت ہو ، اشیاء کا معیار ہو یا پھر سڑکوں کا معیار !
پھر لفظ معیار کی اصطلاح کے لیے ہماری لغت میں ایک نئی انگریزی اصطلاح لائی گئی ” ڈسپوزبل”۔ اب ڈسپوزبل اشیاء تو دیکھ ہی لیں تھیں پھر صحت ، تعلیم ، اور انفراسٹریکچر میں ڈسپوزبلیٹی دیکھانے کا ذمہ پاکستانی حکمرانوں نے بخوبی ادا کیا لیکن جس احسن انداز میں اس کو سندھ حکومت نے ادا کیا اس سے باقی صوبوں کی حکومتیں قاصر رہیں۔
حالیہ مون سون کا موسم پاکستان میں جو تباہی و بربادی لے کر آیا ہے وہ فقط کوئی اچانک آنے والی سیلابی صورتحال کی وجہ سے ہی نہیں ہے بلکہ اس میں اتنا ہی حصہ ناقص قسم کے انفراسٹریکچر کا بھی ہے جتنا اس قدرتی آفت کا ہے۔ ہر سال انفراسٹریکچر کے لیے کھربوں روپوں کا بجٹ جاری کیا جاتا ہے مگر معمول سے زرا زیادہ کی بارشیں ساری قلعی کھول کے رکھ دیتی ہیں کہ کتنا پیسہ تعمیرات پر لگایا گیا ہے اور کتنا ذاتی اکاؤ نٹس میں ڈالا گیا ہے ۔
کراچی کی سڑکیں بلکل کھوکھلی ہو چکی ہیں جگہ جگہ گہرے گڑھے ، ان میں جمع شدہ پانی مسافروں کے لیے معمول کی اذیت بن چکے ہیں ۔ کرتا دھرتاؤں نے شہر کی تعمیر نو کے لیے پھر سے کھربوں کا بجٹ جاری کر دیا گیا ہے اب پھر سے ناقص مٹیریل استعمال کر کے پتھروں کے ڈھیر لگا کے سڑکیں تعمیر کر دی جائیں گی ، پھر سڑکیں مزید اونچی اور رہائشی مکانات مزید نیچے ہوتے جائیں گے جس سے بارش کا پانی اکثر گھروں میں بہنے والے سیوریج کے ساتھ مل جائے گا پھر، پھر سے بارشیں آئیں گی پھر سے ڈسپوزبل سڑکیں ٹوٹیں گئیں پھر سے تعمیر نو کے لیے بجٹ جاری کیا جائے گا پھر سے غبن ہوگا پھر سے ناقص تعمیرات ہونگی کیا یہ سلسلہ کہیں روکتا نظر آرہا ہے ؟
لیکن پاکستان جو ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے خطرے کی زد میں آنے والے ممالک کی فہرست میں پانچویں نمبر پر کھڑا ہے ، کیا اب وہ ایسے مزید دھوکہ دہی کا متحمل ہوسکتا ہے ؟ 1999 سے لیکر 2018 تک پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے 85فیصد خطرناک حد تک خطرے کی زد میں آچکا ہے محکمہ موسمیات کی جانب سے مسلسل خطروں کی پیش رفت، پیشن گوئی ہونے کے باوجود کوئی احتیاطی اقدامات نہیں کیے گئے ۔ حالیہ آنے والا سیلاب اب مستقبل میں عام حالات کا حصہ بن سکتا ہے ۔ دنیا کا درجہ حرارت بڑھ ر ہا ہے، گلئیشرز پگھل رہے ہیں ، بخارات کی صورت میں پانی کی زیادہ مقدار بھاپ بن کے اڑ رہی ہے جو یقینا طوفانی انداز میں برسے گی ۔
مون سون کا موسم جو کبھی پاکستان میں دلفریب ہوا کرتا تھا ، ثقافتی کھانوں کی خوشبویں جو اس موسم کے لطف کو دوبالا کرتی تھی ، مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو ، دھلے دھلے اجلے مکانات اور درختوں کے دلکش مناظر، موسم کی شدت کی وجہ سے اپنی دلفریبی کھو تے جا رہےہیں ۔ ستم ظریفی یہ کہ نقائص انتظامات ،شدید تباہیاں اور قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع مون سون کے موسم کو مسلسل خوف کی علامت بنا رہا ہے ۔
پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے موسموں کی شدت کا بھیانک انداز میں سامنا ہے ۔ سیلابوں سے فصلیں تباہ اور غذائی قلت تو عام بات رہی مگر حالیہ خوفناک سیلاب نے جو انسانی قیمتی جانوں کی تباہی مچائی ہے وہ 2010 کے سیلاب سے بھی زیادہ قیامت خیز ثابت ہوئی ہے۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے مطابق 16 اگست تک صوبوں میں 635 افراد ہلاک ہوئے جن میں سے زیادہ تر بلوچستان میں (196 ہلاکتیں) میں ہلاک ہوئے۔ ایک ہزار 1010 سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں جبکہ کم از کم 72,500 گھروں کو نقصان پہنچنے کی اطلاع ہے۔ اس کے علاوہ ایک لاکھ 10 ہزار 440 مویشی ضائع ہو چکے ہیں اور 2800 کلومیٹر سے زائد سڑکیں اور 130 پلوں کو نقصان پہنچا ہے۔
ظاہر ہے ا ن ہلاکتوں کی تعداد میں تا دم تحریر ، تیزی سے اضافہ ہورہا ہے ۔ جو وفات پا گئے ان کا افسوس تو بہرحال نا قابل بیان ہے مگر المیہ تو زندگی ان کے لیے ہے جو زندہ بچے ہیں ۔ خاندان کے پیارے بچھڑے ، گھر بار ختم ، مال مویشی فنا پھر افتاد یہ کہ ایسے ملک کے باشندے ہیں جہاں 2005 میں آنے والے زلزلے کی نقصانات کے اثرات کا خاتمہ اور تعمیر نو 2022 میں بھی مکمل نہ ہوسکی ۔
بہر طور ،عالمی سطح پر تو ہم ان قدرتی تبدیلیوں کو نہیں روک سکتے مگر کیا ان سے بچاؤ کے لیے انسانی کاوششیں بھی بروئےکار نہیں لائیں جا سکتی ؟ پاکستان کے پاس اب بلکل وقت نہیں ہے کہ وہ اس معاملے کو حل کرنے میں تاخیر کرے ۔ انفراسٹریکچر کی تعمیرات میں جدت کی موجودگی یقینی ہو اور جاری کردہ رقم سے غبن کا سلسلہ بلکل ختم ہوجانا چاہیے۔
پانی کی نکاسی کے راستوں پر تعمیرات بھی ایک بڑا مسئلہ ہے تو دوسری جانب بری طرح ڈیزائن اور جلد بازی میں تعمیر کی گئی سڑکیں ہیں جن پر کچھ ہی وقت میں گڑھے نظر آنا شروع ہوجاتے ہیں جبکہ بنیادی ڈھانچے کی تعمیرات نو کے بعد بھی آفات سے بچاؤ کی تدابیر اختیار نہیں کی جاتی ہیں ۔نکاسی آب کا مکمل نظام نہ ہونے کی وجہ سے سیلاب کا آلودہ پانی ، پینے کے صاف پانی کو بھی مضر صحت بنا دیتا ہے ۔
پانی کی مناسب فراہمی اور نکاسی آب کے نظام کے بغیر دنیا کا کوئی بھی ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ سڑکیں اور فلائی اوور، جو بنیادی اہمیت کے حامل ہیں ، اپنی تباہ حالی پر نوحہ کنا نظر کرتے ہیں۔ ملک کو نکاسی آب کے ناقص نظام اور خستہ حال سڑکوں کے بنیادی ڈھانچے کا سامنا ہے جو اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے میں تنگ تو تھیں ہی مگر اب مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہیں۔
ترقی یافتہ دنیا میں سڑکیں بہت منصوبہ بندی کے بعد تعمیر کی جاتی ہیں اور ان کی باقاعدگی سے دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ لندن جیسے بڑے شہروں میں اکثر بارش ہوتی رہتی ہے لیکن کبھی بھی سڑکیں بڑے بڑے گڑہوں کا روپ اختیار نہیں کرتی ۔ جاپان جو آئے روز زلزلے جیسی بھیانک آفت کا سامنا کرتا ہے مگر انتظامات کے مربوط نظام کی موجودگی سے انسانی جانوں کے ضیاع سے محفوظ رہتا ہے۔
ملکی مسائل کے حل کے انتظام کے لئے پاکستان کو جدید نظام کی اشد ضرورت ہے۔ حکومت کو اس پر غور کرنا چاہئے اور ملک کی خوشحالی کے لئے متروکہ طریقوں کو ختم کر کے جدت کی جانب جا نا چاہئے۔