خطرے کی گھنٹی !

تحریر: نمرہ فلک
پاکستان، اس وقت اپنی سیاسی افراتفری ،ڈوبتی معیشت ،اخلاقی تنزلی سے جوج ہی رہا تھا کہ قسمت کی ستم ظریفی نے ایک کاری وار اور بھی کر دیا ، جس کے سنگین نتائج شاید آج کے بعد سے ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ بڑھتے جائیں گے۔ گذشتہ ایام شائع ہونے والی کئی رپورٹس کے مطابق ، 765,000 پڑھے لکھے نوجوان یہ ملک چھوڑ کے جا چکے ہیں۔ اتنی کثیر تعداد میں پروفیشنل اور ہنر مند افراد کا اپنی مادر ملت کو خدا حافظ کہنا ہمارے لئے خطرے کی گھنٹی بجا رہا ہے۔ دیوالیہ ہونے کے دہانے پر کھڑی ریاست کے لئے اس سے بڑھ کے تشویش کی بات کیا ہوگی کہ اس کے وہ شہری جو اپنے اپنے شعبوں میں ماہر ، قابل اور پیشہ ورانہ ہوں ، یہاں سے رخصت ہو جائیں ، یہ ملک چھوڑنے والانوجوان طبقہ بیشتر ان پر مشتمل ہے جو اس لئے نہیں گئے ہیں کہ بیرون ملک جا کر ڈالرز کما کر پاکستان کو زرمبادلہ بھیجیں گے بلکہ ان کی اکثریت مایوسی کا شکار ہو کہ مستقل طور پر وہاں سکونت اختیار کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اسکے منفی اثرات کا پاکستان کسی بھی طریقے سے متحمل نہیں ہوسکتا ہے ۔ پہلے ہی ملک میں شرح خواندگی نہ ہونے کے برابر ہے مزیدبرآں،اب جو چند فیصد پڑھے لکھے افراد کے جانے سے انسانی وسائل کا خلاء پیدا ہوگا ، اس کی تلافی کے لیے شاید ہمیں پھر سے 75سالہ دور ہی درکار ہوگا ۔بد قسمتی سے، پاکستان کی در آمدات ، برآمدات کے مقابلے میں ویسے ہی بہت کم ہیں ۔ عالمی منڈی میں اس نازک طلب و رسد کے موڑ پر اگر ،وہ اشیاء جو جدید دنیا کے تقاضوں کے مطابق بنا کے در آمد کی جاسکتی تھیں ، ایسی اختراعات کو اپنا کر بنانے والے لوگ چلیں جائیں تو ؟؟؟ ۔
شعور کی کمی اور جذبات کی اندھی تقلید روز اول ہی سے پاکستان کا بنیادی مسئلہ رہی ہے ، باشعور افراد کے چلے جانے سے باقی ماندہ افراد جن کو مفاد پرست حکمران طبقہ دو وقت کی روٹی میں الجھائے رکھتا ہے، وہ کس طرح اپنے حقوق کے حصول کے لئے کھڑے ہو کرزمہ داران کا احتساب کر سکیں گے ؟ احتساب اور جوابدہی کا چلن نہ ہونا ہی ہماری معاشرتی ، معاشی اور سیاسی پستی کی ایک بڑی وجہ بنا ہے ۔ مستقبل میں جو پاکستان کی تنزلی نظر آرہی ہے وہ ابھی سے ہی لرزا طاری کئے دے رہی ہے۔ جبکہ، معاشرتی تنزلی اپنے ساتھ غربت اور اس سے جوڑئےبے شمار اخلاقی مسائل لیکر آئےگی ۔ان سب سے نمٹنا کوئی آسان چیلنج ثابت نہیں ہوگا۔ قابل افراد کا اس کڑے وقت میں ملک چھوڑجانا بلکل ایسے ہی ہے جیسے کسی فرد کے جسم سے باقی ماندہ خون بھی نچور لیا جائے۔ اقتصادی حالات کی بگڑتی صورتحال کے بڑھتے ہوئے اعداد و شمار ہمیں کسی طرح اجازت نہیں دیتے ہیں کہ ” برین ڈرین ” کی اس صورتحال کو،کوئی لائحہ عمل طے کیے بغیر چھوڑ دیا جائے ۔ اس کے سدباب کے لئے پالیسی سازوں کو پہلے اس کی وجوہات کے خاتمے کے اقدامات کرنے چاہئیں۔ جن میں اولاً ،نوجوان نسل کے لئے یکساں اور ہنر پر مبنی تعلیم کے حصول کو ممکن بنایا جائے ، ملک بھر تعلیم کے مختلف معیارات جو سرکاری اور نامی گرامی مشہور تعلیمی اداروں کی صورت میں قائم ہیں ، یہ طلبہ کے درمیان مستقبل کے یقینی اور غیر یقینی ہونے کے فرق کو واضح کرتے ہیں جس سے ان کی ذہنی صلاحیتیں نشوونما کے وقت ہی جمود کا شکار ہوجاتی ہیں ۔ دوم ، مالی مسائل جو ترقی پزیر ممالک کے باسیوں کےلئے دائمی صورت میں کھڑا رہتے ہیں ۔ ترقی یافتہ ممالک اپنے مستقبل کے معماروں کے معاشی مسائل کو مختلف پالیسز اور وظیفے مقرر کرنے کے ذریعے حل کرتے ہیں ۔ ایسے ہی تمام طریقوں کو اپنا کر پاکستان کے بھی اپنے نوجوانوں کو تعلیم کی طرف راغب کرسکتا ہے۔ تیسرا، برین ڈین کی سب سے بڑی وجہ روزگار کے مواقع نہ ہونا یا پھر میرٹ پر نہ ہونا ہیں ۔ ایک نوجوان جو اپنے کئی قمیتی سال لگا کر خود کو ہنر مند بناتا ہے ۔اب جب وہ اپنی صلاحیتیں دکھانا چاہتا ہے تو اس کا معاشی ومعاشرتی استحصال شروع کر دیا جاتا ہے یا پھر رشوت اور سفارشیں اس کی راہ میں چٹان کی طرح کھڑی ہوجاتی ہیں ، وہ نوجوان جو اپنے ملک و قوم کے لئے اپنی خدمات فراہم کرنا چاہتا تھا ، جب اس کو صرف مخصوص طبقے کے مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا جائے تو ہم پھر کیوں اس سے یہ توقع کرتےہیں کہ بیرون ملک سے اسکی قابلیت کی بنیاد پر آنے والی پر کشش تنخواہ ، دیگر مراعات اور محفوظ مستقبل پر مشتمل آفر سے وہ انکار کردے گا!!
چوتھا ، لاء اینڈ آرڈر کی خراب صورتحال ہے ، ڈاکوؤں اور لٹیروں کے رحم وکرم پر چھوڑئے ہوئے لوگ اپنی مدد آپ کے تحت زندگی گزار رہے ہیں ۔ زرا سی مزاحمت پر دن دہاڑے کی شہریوں کی جان لے لینا بہت عام ہوچکا ہے ۔ یہ ایسی ابتر حالت ہے جو وسائل رکھنے والے طبقے کو مسلسل وطن سے چھوڑنے پر اکسا رہی ہے۔
پانچواں ، جذبہ حب الوطنی کا خاتمہ ہے ، یہ وہ جذبہ ہے جو قوموں کا مورال بلند کرتاہے ، ان میں جذبہ خود داری و خود اعتمادی پیدا کرتا ہے ۔اسکی واضح مثال ہمارے ہمسایہ ممالک ہیں، جن کے نوجوان ملٹی نیشنل کمپنیز کے اعلی عہدوں پر فائز ہو کر اپنے اور اپنے ہم وطنوں کے لئے روزگار اور اپنےملک کے لیے اعزاز کا باعث رہے ہیں ۔لیکن ہماراآج کا وہ نوجوان بھی جس اس پر اس مٹی کا بہت احسان ہے، لیکن ملکی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے ہوئے یہاں سے رختِ سفر باندھ لیتا ہے۔ عالمگیریت کے بڑھتے ہوئے تصور نے پاکستان کے موجودہ مسائل کے ساتھ اشتراک کر کے ہماری نسل نو سے وہ جذبہ ہی ختم کر دیا ہے جس نے کبھی لاکھوں قربانیوں کی پرواہ کیے بنا اس سر زمیں کا حصول ممکن بنایا تھا ۔
پالیسی سازوں کو اس وقت نہایت محتاط انداز میں پاکستان کودر پیش مستقبل کے اس مہلک اور سنگین ترین مسئلے کو حل کرنے کے لیے جدید خطوط پر مشتمل اعلی یکساں تعلیم ، میرٹ اور روزگار کی فراہمی اور اخلاقی اقدار کی بحالی کے دہاروں پرمشتمل پالیسیز کو ماہرانہ ماہرانہ طور پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ جبکہ بیرون ملک رخصت ہوئے پاکستانیوں کو ملک میں واپس بلانے کی تجاویز کو بھی زیر غور لانا چاہیئے ۔جس میں انکے لئے پر کشش میرٹ کی بنیاد پر روزگار فراہم کیا جانا یقینی ہوگاتو، گھر والوں اور اپنی معاشرت سے انسیت ان کے لئے وطن واپس آنے کے لئے کشش کا باعث بنے گی۔