وفاقی حکومت نے قبا ئلی اضلاع کیلئے پچھلے مالی سال سے بھی کم فنڈز مختص کئے ہیں، تیمورسلیم جھگڑا

پشاور:وفاقی بجٹ تضادات کا مجموعہ ہے جس کی کوئی سمت نہیں ہے،انضمام کے بعد پہلی بار قبائلی اضلاع کے لئے بجٹ میں پچھلے مالی سال سے کم فنڈز مختص کئے گئے ہیں، قبائلی اضلاع کے متاثرین کے مسمار شدہ گھروں کی بحالی کیلئے اگلے مالی سال میں فنڈ مختص نہیں کیا گیا۔ ان خیالات کااظہار صوبائی وزیر صحت و خزانہ تیمور سلیم جھگڑا، صوبائی وزیر برائے اعلی تعلیم کامران بنگش، قبائلی اضلاع سے ارکان صوبائی اسمبلی سابق معاون خصوصی غزن جمال اور محمد شفیق نے وفاقی حکومت کی اگلے مالی سال کے بجٹ میں ضم اضلاع کے فنڈز میں کٹوتی کے خلاف سول سیکرٹریٹ میں پریس کانفرنس میں خطاب کر تے ہوئے کیا۔وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے سابقہ فاٹا کے بجٹ کو چار سال میں 40 ارب سے بڑھا کر 131 ارب روپے تک پہنچایا جبکہ ہماری حکومت کی گزشتہ مالی سال میں 131 ارب روپے کے مقابلے میں موجودہ وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال کے لیے قبائلی اضلاع کے بجٹ کو صرف 110 ارب روپے کردیا۔انہوں نے کہا کہ قبائلیوں کے مسمار شدہ گھروں کی بحالی کے لیے 17 ارب روپے اگلے مالی سال کے بجٹ میں بالکل ختم کر دئیے ہیں، ان اضلاع کے ملازمین کی تنخواہوں کا بجٹ 60 ارب روپے ہے اور اگلے مالی سال کے لیے بھی کرنٹ بجٹ 60 ارب روپے ہی دئیے جارہے ہیں۔وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15 فی صد اضافہ کے بعد 60 ارب روپے ناکافی ہیں۔ تیمور سلیم جھگڑا نے مزید کہا کہ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل سے ملاقات کرنے کی کوشش کی لیکن وقت نہیں دیا گیا تاہم سیکرٹری محکمہ خزانہ خیبرپختونخوا کی وزیر خزانہ کیساتھ ملاقات کے دوران قبائلی اضلاع کے کرنٹ بجٹ میں 74 ارب روپے دینے کا وعدہ کیاگیا لیکن وعدے کے برعکس 74 کے بجائے 60 ارب روپے مختص کئے گئے، اس لئے مستقبل میں وفاق کے ساتھ تمام معاملات تحریری طور پر طے کریں گے۔انہوں نے موجودہ وفاقی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ 17گریڈ سے اوپر وفاقی ملازمین کو غیر معمولی مراعات دی جارہی ہیں جبکہ دوسری طرف قبائلی اضلاع کے اربوں روپے کے ترقیاتی فنڈز کاٹے گئے ہیں۔تیمور سلیم جھگڑا نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے قبائلی اضلاع کے فنڈز کے لئے ہر وقت آواز اٹھائی ہے،صوبائی محکمہ خزانہ نے 6 جون کو وفاقی حکومت کو خط کے ذریعے ضم اضلاع کی مالی ضروریات بارے بتایا جس کا کوئی جواب نہیں آیاجبکہ چئیرمین پی ٹی آئی عمران خان قبائلی علاقوں کی تعمیر و ترقی میں خصوصی دلچسپی لیتے تھے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ پی ڈی ایم میں شامل جمعیت علمائے اسلام، عوامی نیشنل پارٹی اور محسن داوڑ نے ضم اضلاع کے فنڈ میں کٹوتی پر کوئی مخالفت نہیں کی۔ وزیر خزانہ نے وفاقی بجٹ کو تضادات کا مجموعہ اور بے سمت قرار دیتے ہوئے کہا کہ بجٹ سے متعلق کوئی تجویز نہیں لی گئی اس لئے آئی ایم ایف کے لیے ہم کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے۔صوبائی وزیر برائے اعلی تعلیم کامران بنگش نے میڈیا نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سازش کے تحت لائی گئی حکومت عوام کے سامنے عیاں ہورہی ہے، مسلم لیگ کا چھوٹے صوبوں کے ساتھ رویہ ہمیشہ تعصبانہ رہا ہے، آٹے اور گندم پر پابندی خیبرپختونخوا کے لئے لگائی گئی جس سے صوبے میں آٹے کی قیمت میں اضافہ ہو اہے۔کامران بنگش کا مزید کہنا تھا کہ بجٹ میں اعلیٰ تعلیم کے بجٹ میں کٹ لگایا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اعلیٰ تعلیم کیلئے 104 ارب روپے کے مطلوبہ فنڈز مختص کئے جائیں بصورت دیگر تمام جامعات شدید مالی مشکلات سے دوچار ہونگی، قبائلی اضلاع سے ارکان صوبائی اسمبلی غزن جمال اور محمد شفیق نے وفاقی بجٹ پر شدید تنقید کی اور مطالبہ کیا کہ ضم اضلاع کے عوام سے کئے گئے وعدے پورے کئے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ ضم اضلاع میں مختلف علاقوں میں متاثرین کی واپسی جاری ہے لیکن وفاقی حکومت نے ان کی بحالی کیلئے آئندہ مالی سال کے لیے کوئی فنڈز نہیں رکھے۔