حکومت پاکستان اور تحریک طالبان کے مابین امن مذاکرات ایک ناگزیر عمل

تحریر: عبد الرحمٰن عادل ۔۔۔

ناقدین مذاکرات کے لیۓ دنیا بھر سے چند مثالیں پیش خدمت ہیں۔
حکومت پاکستان اور تحریک طالبان کے مابین جنگ بندی کا جو معاہدہ طے پایا ہے اس پر جوسیاسی جماعتیں یا افراد بضد ہیں انکے لئے دنیابھر سے چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں تاکہ ان کی سمجھ میں یہ بات آجائے کہ حکومت پاکستان نے ٹی ٹی پی کیساتھ مذاکرات کر کے کوئی انوکھا یا غلط قدم نہیں اٹھا یا ہے بلکہ دنیابھر میں مختلف حکموتوں نے مختلف باغیوں یا دہشت گردوں کے ساتھ امن مذاکرات کرکے جنگ کو امن میں تبدیل کیا ہے ۔
اگر ھم اپنے مذہبی تاریخ کے اوراق کو پلٹا ئیں تو میثاق مدینہ کی صورت میں ایک بہترین مثال ہمارے سامنے موجود ہے جو کہ مسلمانوں اور یہودیوں کے مابین طے پایا تھا۔ اس سیاسی حربے پر آجکل کے سیاست دان ابھی تک حیرت میں مبتلا ہیں کہ آپﷺ نے یہودیوں کے ساتھ امن مذاکرات کرکے کیسے اس وقت کے مسلمانوں کے جان و مال کو محفوظ فرمایا۔

جنوبی تھائی لینڈ میں باغی، علاقے کے 1.8 ملین مسلم نسلی ملا ئشیا کے لئے ایک آذاد ریاست کے حصول کے لئے لڑ رہے تھے، جسکی وجہ سے 5500 انسان جان کی بازی ہار گئے جبکہ 10 ہزار زخمی ہوئے۔ 28 فروری 2013 کو تھائی نیشنل سیکیورٹی کونسل (NSC) کے چیٔرمین ، لیفٹننٹ جنرل پیراڈون پتانا تابت اور علیحدگی پسند بیرسن ریولوسی نیشنل (BRN) کے نمائندے ، استاد حسن طیب نے باضابطہ امن مذاکرات شروع کرنے کے لئے ایک معاہدے پر دستخط کئے۔
فلپائن اور کمیونسٹ شورش جو کہ 1960 میں فلفائنی حکومت اور کمیونسٹ جماعت کے مابین شروع ہوا جسکی میعاد چالیس سال سے زیادہ پر محیط ہے، جسکے نتیجے میں چالیس ہزار سے زائد جانیں ضائع ہوئیں اور انگنت لوگ زخمی اور بے گھر ہوئے۔
2011 میں آخر کار دونوں مخالفین نے مذاکرات آخری بار معطل ہونے کے چھ سال بعد ناروے میں امن مذاکرات کی ایک سیریز (تسلسل) پر اتفاق کیا۔
اسکے علاوہ امن مذاکرات کی مزید مثالیں موجود ہیں جیسا کہ ناراض بلوچوں کے ساتھ امن مذاکرات کرنا وغیرہ۔
لہٰذا ان تمام مذکورہ امن مذاکرات کو مد نظر رکھتے ہوئے ناقدین امن مذاکرات کی آنکھیں کھلنی چاہئے کہ دیر پا اور ہمیشہ قائم رہنے والا امن، جنگ سے نہیں بلکہ امن مذاکرات سے ہی ممکن ہے۔ کیونکہ امن ہی تجارت، معاشی خوشحالی اور روشن مستقبل کا ضامن ہےاور مشکل ترین مسئلے کو بھی بات چیت اور تعاون سے حل کیا جاسکتا ہے۔