شاری بلوچ،ایک خودکش بمبار؟

تحریر:عبداللہ جان صابر ۔۔۔۔
کراچی یونیورسٹی کے احاطے میں چینی زبان کے مرکز کے قریب ایک خود کش حملے میں تین چینی اساتذہ سمیت کم از کم چار افراد جانبحق اور چار زخمی ہو گئے ہیں۔علیحدگی پسند اور دہشتگرد تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کے مجید بریگیڈ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ تنظیم کے ترجمان جنید بلوچ کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ حملہ ایک خاتون خود کش حملہ آور نے کیا اور یہ پہلا موقع ہے کہ تنظیم کی جانب سے کسی خاتون نے ایسی کاروائی کی ہے۔بلوچ لبریشن آرمی مجید بریگیڈ کے اہلکاروں کی جانب سے میڈیا کو جاری کی گئی تفصیلات کے مطابق وہ دو بچوں کی ماں تھی اور ان کا تعلق کیچ سے تھا۔
اس خود کش دھماکے کے بعد سوشل میڈیا پر مختلف سوچ اور فکر کے لوگ کٸی طرح کے سوالات اٹھاتے ہیں۔چند بیانات تو ایسے بھی سامنے آٸی جس میں شاری بلوچ کو خودکش بنانے والوں کی طرح پاکستان اور اسکے اداروں کو ٹارگٹ کیا ہے،حسب روایت اس ظلم اور بربریت کیلٸے سیکیورٹی اداروں اور حکومت پاکستان کو مورد الزام ٹہرایا جاتا ہے مطلب دشمن اتنا خوشیار ہے کہ خود کش حملہ بھی اپنے لوگوں سے کروایا او پھر سوشل میڈیا پر منفی کمپین کیلٸے بھی پاکستان ہی کے لوگوں کو استعمال کیا اور یہی وہ بنیادی چال ہے جس پر پاکستان دشمن قوتوں نے خاص توجہ دی ہے۔
شاری بلوچ کیوں اور کس نے خود کش بمبار بناٸی؟ شاری بلوچ کی منفی ذہن سازی کے پیچھے کونسے عوامل کارفرما ہوتے ہیں؟ پاکستان دشمن عناصر بلوچوں کو کن نعروں سے ورغلانے کی کوشش کرتے ہیں؟اور پاکستانی ریاست کو کونسے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہیں؟
ان سوالات کے جوابات جاننا حکومت،ریاستی اداروں اور نٸی نسل کیلٸے انتہاٸی اہم اور وقت کی ضرورت ہے۔شاری بلوچ کے سوشل میڈیا اکاٶنٹس اگر دیکھے جاٸے تو انکی پکی ذہن سازی کے آثار نمایاں طور پر نظر آرہے ہیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ جنگ کی پانچویں جدید شکل ´ہاٸیبرڈ وار فیٸر` کو اپلاٸی کرنے کے بعد دشمن ہماری نٸی نسل کے ذہنوں پر سوار ہوچکا ہے اور ایک سکالر کو خود کش بمبار بنانے کیلٸے راستہ ڈھونڈ نکالا ہے جو انتہاٸی خطرناک عمل ہے۔
کراچی خودکش حملہ بلوچستان میں جاری پانچویں بغاوت کی ایک کڑی ہے۔ اس پانچویں بغاوت کی فنڈنگ اور سرپرستی براہِ راست اور بھرپور طریقے سے نہ صرف ہندوستان کررہا ہے بلکہ امریکا اور افغانستان بھی ان باغیوں کے سہولت کاروں میں شامل ہیں۔
اس پانچویں بغاوت سے قبل پاکستان کے خلاف ماضی میں جو ۴ بغاوتیں ہوئیں، ان کو حکومت اور فوج کی مشترکہ حکمتِ عملی سے کچل دیا گیا تھا۔ بلوچستان میں جاری پانچویں مسلح بغاوت کا آغاز ۲۰۰۴ء میں ہوا جو اس وقت ریاست پاکستان کے خلاف چند بلوچ جتھوں کی طرف سے پانچویں بغاوت وفاقی حکومت کی بہترین حکمت عملی اور پاک آرمی کے پیشہ وارانہ مہارت پر مبنی فوجی آپریشن کے باعث، ہر محاذ پر ہزیمت کا شکار ہوکر ناکامی کی طرف بڑھ رہی ہے
ملک دشمن عناصر اور دہشتگرد تنظیمیں روز اول سے بلوچستان کے معصوم عوام کو چند بے بنیاد نعروں پر ورغلانے کی کوشش کرتے آرہے ہیں تاکہ یہ لوگ محب وطن پاکستانی بننے اور پاکستان کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کی بجاٸے دہشتگردانہ سرگرمیوں کیلٸے ایندھن کا کردار ادا کرتے رہے۔اس مقصد کیلٸے دشمن قوتوں نے ذہن سازی کے مراکز قاٸم کٸے ہیں۔ان مراکز میں بلوچ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو صوبے کی محرومیوں کا حوالہ دیکر بڑھکایا جاتا ہے کہ بلوچستان کے وساٸل لوٹ کھسوٹ کر پنجاب کو دیٸے جاتے ہیں، گوادر پورٹ پر بیرونی طاقتوں کا قبضہ ہے، بلوچستان پر افواج پاکستان بزور شمشیر قابض ہیں اور آخر میں جنت کی جھوٹی نوید سناکر خود کش بننے کیلٸے تیار کٸے جاتے ہیں لیکن بلوچ نوجوانوں نے کبھی ایک بار بھی یہ سوچنے کی زحمت کی ہے کہ بہت کچھ دینےکے باوجود اگر پاکستان نے ہمیں کچھ نہیں دیا تو جو لوگ ہمیں خود کش بناتے ہیں اس سے ہمیں کیا ملنے والا ہے۔۔
دنیا و آخرت کی بربادی؟
اپنے بچوں کو یتیم کرنا؟
اپنی نسلوں کو جہالت اور دہشت کے اندھیروں میں دہکھیلنا؟
دشمن کیساتھ سازشی حربوں کا آلہ کار بننا؟
انسانیت کا قتل؟
یاد رکھے کہ یہ ساری باتیں اللہ تعالی کے ہاں حرام اور ناپسندیدہ ہیں۔
یہاں شاری بلوچ کے خاندان والوں سے بھی ایک سوال ہے کہ جب وہ مجید بریگیڈ میں وردی اور بندوق کیساتھ فوٹو شوٹ کروارہی تھی تو آپ لوگوں نے اسکو منع کرنے میں کیا کردار ادا کیا ہے؟ اس ملک سے گلے شکوے ہر پاکستانی کو ہونگے لیکن ملک کو تباہ کرنے کی اجازت نہ اسلام دیتا ہے اور نہ ہی قانون۔
پاکستان سے اس لعنت کے مکمل خاتمے کیلٸے اجتماعی سوچ اور عمل کی ضرورت ہے کیونکہ اس بار پاکستان کی نٸی نسل کو برین واشنگ کے ذریعہ اس جنگ کا حصہ بنایا جارہا ہے جس کیلٸے سوشل میڈیا انتہاٸی مضبوط آلہ ہے۔پاکستان کی حکومت اور سیکیورٹی اداروں کو جنگی ساز و سامان میں ڈیجیٹل میڈیا کے ٹیمز شامل کرنا ہونگے کیونکہ یہ وقت کہ انتہاٸی اہم ضرورت ہے۔
دوسری بات یہ کہ یہاں پاکستان کی حکومت اور ریاستی اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ وجوہات ڈھونڈ نکالے جاٸے جن کیوجہ سے آج ایک سکالر ماں خود کش بمبار بن گٸی اور پھر انکو حل کرنے کیلٸے ٹھوس اقدامات بھی اٹھاٸے۔میں یقین کیساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ہماری ریاستی ماں سے بھی ماضی میں کچھ غلطیاں ہوٸی ہونگی جن کیوجہ سے شاری بلوچ کیطرح باغی بچے پیدا ہوجاتے ہیں اور دشمن کے ہاتھ لگ جاتے ہیں۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ہمارے سکول، کالج اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ ملکر اٹھارہ سالہ تعلیمی سفر میں شاری بلوچ کو مثبت سوچ دینے میں ناکام رہے لیکن بی ایل اے منفی سوچ بنانے میں کامیاب ہوگٸی۔یہ ہمارے تعلیمی نظام کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔میری تجویز ہے کہ اساتذہ پوزیشن لینے کیلٸے بچوں کو متحرک نہ کریں بلکہ انکی کردار سازی اور ذہن سازی پر توجہ دیں کیونکہ یہاں سے نکل کر بچیاں شاری بلوچ بنتی ہے یا عارفہ کریم۔۔۔