پھول اور کانٹے

تحریر:عبداللہ شاہ بغدادی
بعض اوقات تعلیم یافتہ معاشروں میں ایسے حادثات رونما ہوجاتے ہیں جس کو دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتاہے۔تعلیم یافتہ افراد کے اذہان میں یہ سوال اچھلنا کھودنا شروع کردیتا ہے کہ تعلیم کے باوجود ایسا کیوں ہوا؟اس کیوں نے ہمارے ذہن کو بھی عرصہ دراز تک بے چین رکھا۔کبھی کبھی سوچتے تھے کہ شاید بگڑے ہوئے تعلیم یافتہ معاشرے میں بگاڑ کی وجہ غیر معیاری تعلیم ہے۔ایک وجہ یہ ضرور ہے کہ ہمارے وطن عزیز میں تعلیم کا معیار علم نہیں بلکہ حاصل کردہ نمبرات ہیں۔زیادہ نمبرات لینے والے طلباء و طالبات کو قابل ترین سمجھا جاتاہے۔چاہے ان کو کچھ آئے یا نہ آئے۔ان تعلیمی اداروں میں داخلے نہیں ملتے جن کے بورڈ کے امتحانات میں نمایاں پوزیشن ہوتے ہیں۔اب نمبرات چاہے جیسے بھی حاصل کئے جائے لیکن ہو زیادہ۔لیکن معاشرہ کی بگاڑ کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کیونکہ تعلیم انسان کو سمجھدار ضرور بناتی ہے لیکن تقوی دار ہر گز نہیں۔تعلیم سوچنے کی قوت کو پختہ کرتی ہے اور ایک تعلیم یافتہ شخص ایک کام کرنے سے پہلے اس کے بارے میں سوچتا ہے اور انجام تک پہنچ کر کام کو کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔یہ درست ہے کہ حقیقی تعلیم یافتہ افراد میں بہت سی خوبیاں پیدا ہوجاتیں ہیں۔صبر وتحمل،برداشت،اٹھنے بیٹھنے کا سلیقہ اور گفنتگو کے طور طریقے تعلیم ہی کے عطاء کردہ تحائف میں سے ہیں۔یہ شعور حقیقی تعلیم کے حصول سے حاصل ہوتاہے۔لیکن اگر تعلیم حقققی نہ ہو تو پھر خواند ہ افراد کی تعداد ضرور بڑھ جاتی ہے لیکن معاشرے میں بہتری پیدانہیں ہوتی جو تعلیم کا اصل مقصدہے۔اگر تعلیم حقیقی بھی ہو تو پھر بھی معاشرہ مثالی نہیں بنتا۔اگرچہ حقیقی تعلیم یافتہ معاشرے میں مسائل نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں لیکن پھر بھی یہ وہ معاشرہ نہیں ہوتا جو سب کے عزت و آبرو کا محافظ ہو۔جیسا کہ میں پہلے عرض کرچکا ہو کہ تعلیم سوچنے کی قوت میں پختگی پیدا کرتا ہے اور تعلیم یافتہ انسان نفع ونقصان کو دیکھ کر قدم اٹھاتاہے۔اب اگر ایسا فعل ہو جو سراسر غلط ہو لیکن اس میں دنیاوی کوئی نقصان نہ ہو تو کوئی بھی اعلی تعلیم یافتہ فرد اس کا مرتکب ہوسکتاہے۔یا یوں کہا جاسکتا ہے کہ انسان موقع پرست بن جاتاہے۔جہاں پر اس کو نقصان نظر آتا ہے وہاں پر یہ کوئی بھی ایسا کام کرنے سے کتراتاہے اور جہاں پر اس کو کسی نقصان کا خوف نہ ہو وہاں پر یہ ہر غلط کام کرنے سے گریز نہیں کرتا۔ہمارے اس وطن عزیز میں ٹریفک قوانین کو جوتے مارنے والے تعلیم یافتہ حضرات جب بیرونی ممالک چلے جاتے ہیں تووہاں پر ایسے مثالی ڈرائیونگ کا مظاہر ہ کرتے ہیں کہ پردیسی بھی حیران ہو جاتے ہیں۔ایسی بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ تعلیم یافتہ افراد موقع پرست ہوتے ہیں اور بہت سی غلط افعال کرنے سے نہیں کتراتے۔اس طالب علم کو تاریخ چاٹنے کے باوجود بھی کوئی ایسا تعلیم یافتہ معاشرہ نہیں مل سکا جس کو مثالی اور محفوظ معاشرہ قرار دیا جاسکے۔مغر ب کے مہذب معاشروں کی مثال دور کے ڈھول سہانے کے سواء کچھ نہیں۔کافی تک و دو کے بعد ایک ایسے معاشرے کو پایا جہاں انصاف کا بول بالاں تھا۔جہاں امیر و غریب کے حقوق برابر تھے۔جہاں پر سب کی جان،مال اور عزت محفوظ تھی۔یہ معاشرہ مدینہ کا وہ معاشرہ تھا جس کی بنیاد آپ ﷺنے رکھی تھی۔اس معاشرے کے بارے میں پڑھنے کے بعد اس طالب علم کو تعلیم یافتہ معاشروں میں بگاڑ کی اصل وجہ سمجھ میں آئی۔تعلیم اگرچہ انسان کو سمجھ دار بناتی ہے لیکن انسان کی جان،مال اور عزت وآبرو کی حفاظت کے لئے محض یہ سمجھداری کافی نہیں ہے۔جب تک انسان کے دل میں خوف خدا نہ ہو تب تک نہ تو وہ فرد ٹھیک ہوسکتا ہے اور نہ ہی ایسے افراد سے مل کر بننے والے معاشرے۔خوف خدا انسان کو نہ صر ف سر عام گناہ او ر غلط افعال کرنے سے روکتی ہے بلکہ خلوت میں بھی وہ اللہ تعالی کا فرمان بردار رہتا ہے۔ایک تعلیم یافتہ فرد چپ کر روزہ کھا سکتا ہے لیکن ایک متقی ایک بند کمرے جہاں اس کے سواء کوئی اور موجود نہیں ہوبھی روزہ کا محافظ رہتا ہے۔جس طرح قانون انسان کو بیرونی طور پر غلط افعال کرنے سے روکتاہے بالکل اسی طرح تقوی اندرونی طور پرا نسان کو گناہوں سے دور رکھتاہے۔مذہب انسان کو انسان بنانے کے لیے واحد زریعہ ہے اور جو معاشرہ مذہب کو بھلاکر خود ساختہ طریقوں پر چلتا ہے اس میں اور جنگل میں کوئی فرق باقی نہیں رہتی۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایساہے تو پھر مغرب کے معاشرے بہ نسبت ہمارے مشرقی معاشروں کے زیادہ محفو ظ کیوں ہیں؟کیونکہ انہوں نے تو مذہب کو کب کا نکال باہر کیاہے۔اس کے دو جواب ہیں۔ایک تو یہ کہ وہ معاشرے واقعی اتنے محفوظ نہیں ہیں جتنے وہ دکھائی دیتے ہیں اور دوسرا اگرچہ وہاں مذہب برائے نام ہی ہے لیکن وہاں کا قانون اتنا سخت تشکیل دیاگیاہے کہ کوئی بھی اس کو باآسانی سے لات نہیں مار سکتااور یہ قانون سب کے لیے برابر بھی ہے۔جہاں لوگ مذہب کے پیروکار بھی ہو وہاں پر بھی قانون کی بالادستی اور برابری لازم ہوتی ہے۔اور جہاں نہ تو لوگ مذہب کے قریب ہو اورنہ ہی قانون کی بالادستی اور برابری ہوں وہاں پر پھر جرم کا ہی راج ہوتا ہے۔اس جرم کا ارتکاب کرنے والے پردیسی نہیں ہوتے بلکہ اسی معاشرے کے پیداکردہ انسان ہوتے ہیں۔اتنی لمبی تمھید باندھنے کا مقصد قارئین کی توجہ اس وطن عزیز میں قائم معاشرے کی طرف راغب کراناہے۔کیا ہمارہ معاشرہ مذہبی ہے؟ کیا اس معاشرے میں قانون کی بالادستی ہے؟ کیا قانون سب کے لیے برابر ہے؟اگر ان سوالات کا جواب نفی میں ہے تو پھر تو پھر ہمارا معاشرہ ایک جنگل کی مانند ہے ااور اس میں کسی کی بھی جان،مال اور عزت محفوظ نہیں ہے۔یہی بگاڑ ہے جس کی مہربانی سے پاکستان دنیا کے ان پہلے دس ممالک میں شمار کیاجاتاہے جہاں حوا کی بیٹیوں کی عزت کو تار تار کیا جاتاہے۔ان کی عزت لوٹنے والے نہ امریکہ سے آتے ہیں اور نہ ہی انڈیا سے بلکہ اسی وطن عزیز میں پیداہونے والے مسلمان ہیں جن کے نام بھی دین اسلام کے اصولوں کو مد نظر رکھ کر رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔سب سے زیادہ غیر محفوظ وہ معصوم بچے اور بچیاں ہیں جو جنسی زیادتی کا شکار بناکر مار دئیے جاتے ہیں اور ان کی نعشیں کھیتوں اور گند کے ڈھیروں پر ملتیں ہیں۔بچے کیوں؟وہ اس لئے کہ جس طرح جنگل میں ایک معصوم جانور ایک طاقتور جانور کا مقابلہ نہیں کرسکتا اور قتل کردیا جاتا ہے بالکل اسی طرح یہ معصوم بچے اور بچیاں اپنی دفاع نہیں کرسکتے اور درندوں کے ہاتھوں چڑھ کر آہو اور سسکیوں میں اس فانی دنیا سے کوچ کرجاتے ہیں۔ساحل نامی ایک غیر سرکاری تنظیم نے ایک سروے کی جس کے مطابق پاکستان میں ہر روز 12بچے اور بچیاں زیادتی کا شکار ہوتیں ہیں۔اس کے مطابق 2018میں بچوں اور بچیوں کے ساتھ ہونے والے زیادتیوں میں 32 فیصداضافہ ہوا ہے۔2017میں ایسے کیسز جو رجسٹرد ہوئے کی تعداد 1,764تھیں لیکن 2018میں ایسے کیسز کی تعداد جو رجسٹرڈ ہوئی 2,322ہے۔ ان سب سے چشم پوشی کرتے ہوئے صرف کے پی کے میں ہونے والے واقعات پر نظر دوڑاتے ہیں۔ان کیسز میں کے پی کے میں ہونے واقعات کی تعداد 70ہے۔ان بچوں اور بچیوں کی عمر جو جنسی تشدد کے شکار بنے چھ اور پندرہ سال کے درمیان ہے۔اس کے علاوہ ایک اور غیر سرکاری تنظیم چائلڈ پروٹکشن اینڈویلفئیر کمیشن کے سروے کے مطابق کے پی کے میں بچوں کے ساتھ ہونے والے کیسز کی تعدادبھی کچھ کم نہیں ہے ۔ایک سروے کے مطابق تقریباً17 فیصدکیسز پولیس کے پاس رجسٹرڈ بھی نہیں کے گئے۔اس کی وجہ خاندانی عزت تھی۔ان میں سے 24 فیصدکیسز شہری جبکہ 76 فیصددیہاتی علاقوں میں واقع ہوئے،آئے روز اس تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہورہاہے۔حال ہی میں مردان کے علاقہ نرائے میں کمسن بچی اقراء اور ایبٹ آباد کی بچی کشف گل شامل ہیں،ذرائع کے مطابق اقراء قتل کیس مردان میں آٹھواں وقو عہ ہیں۔اس تباہی کو روکنے کے لئے حقیقی تعلیم اور دینی ماحول کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا۔ جب یہ طالب علم دینی ماحول کی بات کرتاہے تو بعض دوست واحباب چند مولیوں کا حوالہ دیتے ہیں جو بچوں اور بچیوں سے زیادتی کے مرتکب ہوئے ہیں۔اس ضمن میں میرا جواب یہ ہے کہ انسان جب تک زندہ رہتاہے تب تک اس میں پائیں جانیں والیں جبیلتیں بھی زندہ رہتیں ہیں۔یہ انسان کے موت کے ساتھ مر تیں ہیں اس سے قبل نہیں۔ان میں ایک شہوت بھی ہے۔یہ شہوت کبھی بھی نہیں مرتی۔تقوی اور پرہیز گاری کے ساتھ یہ بے ہوش ہوجاتی ہے۔جب تک انسان پر شیطان غلبہ حاصل نہ کرے تب تک یہ بے ہوش رہتی ہے یا جب تک انسان اس کو خود ہوش میں نہ لائے۔مساجد میں بیٹھے ہوئے لوگ بھی انسان ہی ہیں وہ فرشتے نہیں ہیں جن سے کوئی گناہ سر زد نہیں ہوتی۔ان میں بھی شہوت ہوتی ہیں۔یہ کب ہوش میں آئے اس کا کسی کو علم نہیں ہے۔اس سے دین کی کمزوری یا تقوی کی غیر پائیداری ثابت نہیں ہوتی۔یہ ضروری نہیں کہ جو لوگ مساجد میں قرآن پڑھائے وہ تقوی دار بھی ہو۔اگرچہ ظاہری طور پر وہ اللہ تعالی کے گھر میں بیٹھے ہوتے ہیں لیکن ہوسکتا ہے کہ کردار کے لحاظ سے وہ کچھ اور ہو۔اس میں والدین بھی قصور وار ہیں کیونکہ جب سکول میں داخلے کی بات آتی ہے تو پورے پاکستان کی سکولز کی معلومات اکٹھی کی جاتیں ہے لیکن جب مدرسے کی بات آتی ہے تو کسی کے بھی پاس بٹھا دیتے ہیں۔اس میں بھی تحقیق کرنی چاہیے کہ میرا بچہ جس کے پاس قرآن سیکھنے جارہا ہے وہ کون ہے؟کیاہے؟کہاں سے ہے؟ اس کے علاوہ قانون کی بالادستی اور برابری کو رواج دینا ہوگا۔قانون کے نفاذ کو یقینی بنانا ہوگا۔بچوں اور بچیوں کو سکولوں میں باقاعدہ طور پلر پڑھانا چاہیے کہ کس طر ح انہیں نہ آشنااو ر اجنبی لوگوں سے دور رہناہے۔شاید ان اقدامات سے ان کیسز میں کمی واقع ہو۔لیکن اصل بات معاشرہ کی اصلاح ہے کیونکہ 48فیصدکیسز وہ رجسٹرڈ ہوئے جو آشنا لوگوں نے کیے۔نکاح کو آسان سے آسان تر بنانے کی ضرورت ہے۔کم عمر لڑکوں کو انٹر نٹ اور موبائیل سے دور رکھنا ہوگا۔اگر ہر بندہ اپنے گھر کے ماحول کو دین کی روشنی سے منور کردیں اور بچوں اور بچیوں کی بر وقت شادی کریں اور اپنے بچوں اور بچیوں پر کھڑی نظر رکھیں تو ممکن ہے کہ ان واقعات میں نمایاں کمی واقع ہوجائے۔