ثمرقند ہم تمہیں نہیں بھولے

تحریر: سیار احمد ہمدرد ۔۔۔۔
اگر میرا شیرازی محبوب میری محبت قبول کرے تو میں اس کے رخسار کے تِل کے بدلے میں ثمرقند اور بخارا بخش سکتا ہوں (ترجمہ فارسی شاعر حافظ شیرازی کے اشعار سے). جس خوبصورت انداز میں شاعر نے ان دونوں شہروں کی اہمیت ظاہر کی ہے اسی طرح ہم نے وہاں جا کر پایا ہے یہ ایک اتفاقآ سفر تھا جس میں میرے ساتھ بہت ہی مخلص اور قریبی دوست محمد زعفران اور ساجد محمود شامل تھے صوبہ پنجاب کے ضلع اٹک کے شہرحسن ابدال  سے ہمارا اِس یادگار سفر کا آغاز ہوا جہاں مانسہرہ اور ایبٹ آباد سے آئے ہوئے دونوں دوست میرے انتظار میں تھے موٹروے پر ہمارا یہ سفر قدیمی شہر ملتان تک اختتام پذیر ہوا یہاں پر محمد زعفران کے ایک قریبی دوست قمر زمان کے ہاں ٹھہرے جس نے بہت ہی خندہ پیشانی اور لذیذ کھانوں سے ہماری تواضع کی.جس میں شامل خوشبودار مٹن بریانی کے ساتھ دھیمی آنچ پر پکنے والی مٹن کڑھائی کو ہرے دھنیا ہری مرچ اور ادرک کے ساتھ سجا کر گرم مصالحہ چھڑک کر نان اور زیرے کے رائتے کے ساتھ پیش کیا گیا. اس کے بعد چونسا, لنگڑا اور انور لٹورآموں سے بھی لطف اندوز ہوئے. ملتان میں یہ مختصرقیام ہمارے اچھے دوست سمیع اللہ خان اور عنایت خان چاچا کے گھر کڑک چائے پی کر اختتام پذیر ہوا جس سے ساری سفر کی تھکاوٹ دور ہوئی. وہاں سے ہم نے ایئرپورٹ کی تیاری پکڑ لی پھر ایئرپورٹ پر پرواز کی تاخیر نے پریشان کیا تھا لیکن آخر کار طیارے نے اڑان بھر لی اور ہم مسقط پہنچ گئے وہاں پرواز مزید تاخیر کا شکار ہوئی اور پھر ازبکستان کے شہر ثمرقند ایئرپورٹ میں داخل ہوئے وہاں ضروری کاغذات کی جانچ  پڑتال کے بعد ہوٹل سے آئے ہوئے بڑی بڑی بسیں سیکورٹی کے ساتھ موجود تھی جس میں ہمیں ہوٹل  لے جایا گیا. دو گھنٹے کے بعد ناشتے کا وقت ہو چکا تھا اور ہم ناشتہ کرنے ہوٹل کے میس ھال پہنچ گئے ناشتہ ہمارے روزمرہ ناشتے سے تھوڑا مختلف تھا کیونکہ یہاں کے لوگ ناشتے میں تربوز اور خربوزہ کے ساتھ ساتھ آلو بخارا، مکھن، ڈبل روٹی، دہی اور ابلے ہوئے انڈے کھاتے تھے ناشتے کے بعد آرام کیا اور پھر عصر کے بعد ہوٹل سے باہر چہل قدمی کے لیے  نکل پڑھے اسی اثنا میں مغرب کی اذان کا وقت ہوا اور ہم مسجد ڈھوندنے لگے ہمیں یہ دیکھ کر بہت حیرانی ہوئی کہ یہاں دور دور تک کوئی مسجد نہیں تھا راستے میں ایک یونیورسٹی کے باہر دو بزرگ بیٹھے تھے ان کو سلام کرکے مسجد کے بارے میں پوچھنے لگے لیکن زبان ایک نہ ہونے کی وجہ سے وہ سمجھ نہ پائے اتنے میں ایک راہ گیر دوشیزہ آئی اور کہنے لگی کیا میں آپ لوگوں کی مدد کر سکتی ہوں ہم نے کہا ضرور کیونکہ وہ انگریزی زبان کو بخوبی سمجھتی تھی اس نے ہمارا حال چال پوچھا  اور ان دونوں بزرگوں کے مابین ہماری ترجمانی کرنے لگی چونکہ یہ بات وہ بھی جانتی تھی کہ یہاں کوئی قریبی مسجد نہیں ہے اس لئے ہماری خواہش پر یونیورسٹی میں نماز پڑھنے کے لیے جگہ مانگی جس پر وہ بزرگ خوش ہوئے اور ہمیں یونیورسٹی کے اندر ایک صاف ستھرے  قالین بچا ہواکمرے میں لے جا کر قبلے کا درست سمت بتا کر باہر گئے ہم نے نماز مغرب ادا کی اور پھر باہر آکر ان دونوں کا شکریہ ادا کیا ان لوگوں کی اخلاق دیکھ کر بہت زیادہ خوشی ہوئی.
یہاں کے لوگ مکمل مغربی لباس پہنتے ہیں داڑھی اور نقاب پر پابندی عائد ہے لیکن خواتین نگاہیں نیچی رکھتی ہیں اور کئی پر بھی بے حیائی نہیں ہے. پرامن اور خوش اخلاق لوگ ہیں. اس کے بعد دوسرے دن ہم نے طے کر دیا کہ مسجد جائیں گے کچھ سفر کرنے کے بعد دور سے کچھ مینار نظر آرہے تھے نزدیک جا کر دیکھا تو یہ امیر تیمور کا مقبرہ تھا جس کے نزدیک ایک مسجد بھی تھی جس میں نماز ادا کیا وہاں پر بھی ایک نوجوان نے ہمیں دیکھ کر بہت خوشی کا اظہار کیا اور خوش آمدید کہا یہاں کے لوگوں کا رویہ دیکھ کر بہت خوشی ہو رہی تھی .اس کے بعد اگلے دن صبح ناشتے کے بعد تاریخی مقامات دیکھنے کا فیصلہ کیا اور سب سے پہلے امیر تیمور کے مقبرے میں گئے امیر تیمور دنیا کے بڑے فاتحین میں شمار ہوتے ہیں جن کی پیدائش 336 میں ثمر قند کے قریب ایک قصبے میں ہوئی تھی اپنی سلطنت وسطی ایشیا سے افغانستان، ہندوستان، بغداد و دمشق، فارس، انقرہ اورآرمینیا تک وسیع کی تھی  دونوں ہاتھوں سے تلوار چلانے کی حیثیت رکھتے تھے دلی فتح  کرنے کے بعد 70 برس کی عمر میں انتقال کر گئے امیر تیمور کے مقبرے کی عالی شان عمارت دیکھنے والوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے یہاں داخل ہونے کے لیے 30 ہزار سوم (ازبکستان کرنسی)  کے حساب سے فی بندہ ٹکٹ درکار تھا جو کہ تین ڈالر بنتے ہیں ٹکٹ لے کر ہم اندر داخل ہوئے عالیشان گنبدوں کے سائے میں امیر تیمور کے ساتھ باقی قبریں بھی موجود ہیں قبروں میں مدفون لوگوں کے نام اور مقام کا نقشہ آویزاں تھیں اس کے ساتھ وہاں ثقافتی چیزیں بھی فروخت ہو رہی تھی جس میں تیمور کی تصاویر سمیت موسمیاتی کپڑے وغیرہ فروخت ہو رہے تھے اس کے بعد ایک ازبک ٹیکسی ڈرائیور سے باقی تاریخی مقامات پر جانے کے لیے بات کی جس کے لیے انہیں چار لاکھ سوم درکار تھے جو کہ چالیس ڈالر بنتے تھے اس سے 35 ڈالر پر اتفاق کر کے آگے نکل گئے وہ ہمیں پیپر مل لے گئے جہاں پروڈکشن دستی ہے اور زائرین اپنی آنکھوں سے کاغذ سازی کا عمل دیکھ سکتے ہیں یہاں فیکٹری دورے کے لیے پندرہ ہزار کی ٹوکن ادائیگی کرنی ہوتی ہے یہاں کی دلکش مناظر سایہ دار درخت، بلبلہ پانی کے ساتھ دریا سیاب، داخلی دروازے پر ایک چھوٹا سا چائے خانہ اور سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ زائرین اپنی آنکھوں سے پیپر سازی کا عمل دیکھ سکتے ہیں جو دستی پروڈکشن ہے اور پیپر بنانے کے لیے شہتوت کی چھال کو خام مال کے طور پر لیا جاتا ہے چھال کو باہر سے صاف کیا جاتا ہے پھر بڑے پین میں دیر تک ابالا جاتا ہے پھر اس کو بڑے ستوپوں میں پیٹا جاتا ہے تاکہ ہم آہنگی ہو اور آٹا کی طرح ایک یکساں میش بنایا جائے. کئی مراحل کے بعد آخر میں ہڈی کے سینگ کے ساتھ پالش کرتا ہے. اس مقام  کے بعد ہم مرزا الوغ بیگ کی رسیدگاہ پہنچ گئے یہ آج بھی ماہر علوم فلکیات کے لیے مثال ہے امیر تیمور کے پوتے مرزا الوغ بیگ انتہائی ذہین اور ماہر فلکیات تھا مرزا الوغ بیگ نے  14 ویں صدی میں جو دیوہیکل دوربین کی تصنیف کے لیے جو عمارت بنائی گئی تھی اس کی باقیات اب بھی موجود ہے مرزا الوغ بیگ کےفلکیات کے نظام میں نظریات آج بھی کارآمد ہے. وہ فن فلکیات کے رازوں کی باریکیوں سے واقف تھے. اس کے بعد امام بخاری کمپلیکس کے لئے روانہ ہوئے امام محمد بن اسماعیل بخاری شیخ المحدثین کے مزار پر گئے. چونکہ وہاں ترکیوں نے بہت بڑا تعمیراتی کام شروع کیا ہے اس لئے قریب جانے کے سارے راستے بند تھے جس کی وجہ سے  باہر سے دعا کرنا پڑھا مولانا شیخ المحدثین امام بخاری کو اللہ تعالی نے مثالی قوت حافظہ عطا فرمائی تھی 16 برس کی عمر میں مکہ مکرمہ میں دو برس تک قیام کر کے علم حدیث حاصل کیا اور اٹھارہ برس کی عمر میں مدینہ منورہ آئے تھے آپ کا انتقال 62 برس کی عمر میں 256 ہجری میں ہوا.
وہاں سے پھر ہم ابو منصور ماتریدی کے مزار پر گئے پورا نام محمد بن محمد بن محمود ابو منصور ماتریدی ثمرقندی حنفی ہے ابو منصور ماتریدی کو ثمرقند کے ایک محلّہ ” ماترید” کی طرف نسبت کی وجہ سے “ماتریدی” کہا جاتا ہے آپ اسلامی فقہ قرانی تفسیر کے ایک مشہور عالم تھے آپ کا مزار بھی ایک اونچی اور خوبصورت پرانی طرز تعمیر عمارت کے اندر ہے تاریخ میں اس قبرستان کا ذکر مقبرتہ المحمدین کے نام سے کیا جاتا ہے اس میں صرف وہ علماء مدفون ہیں جن کے نام میں محمد لگا ہوا ہے ایسے علماء کی تعداد 400 بتلائی جاتی ہے. اس کے بعد حضرت دانیال علیہ السلام سے منسوب ایک مزار دیکھنے کا بھی شرف حاصل ہوا یہاں مسلمان یہودی سب آتے ہیں اور اپنے اپنے مذہبی عقیدے کے مطابق عبادت کرتے ہیں ایک طویل تقریبا 18 میٹر قبر ہے جس پر سونے سے قرآنی آیات نقش کی گئی ہے. یہاں سے واپسی پر ہماری ملاقات ایک سیاحتی گروپ سے ہوئی جو ازبکستان کے دور دراز علاقے سے ثمرقند آئے  تھے ہمیں  پاکستانی کپڑوں میں دیکھ کر بہت خوشی کا اظہار کیا اور ہمارے ساتھ تصویرے بنانے کی خواہش ظاہر کی. تقریباً 15 خواتین پر مشتمل اس سیاحتی گروپ نے ہمارے ساتھ سیلفیاں بنائی اور ہمیں یہ احساس دلایا کہ ہم پاکستانیوں سے بہت محبت کرتے ہیں. اس کے بعد ہم نے ثمرقند کے  پرانے بازار جانے کا ارادہ کیا اور پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہاں ایک بازار ہے جسے  سیاب  بازار کہا جاتا ہے  یہ بازار بی بی خانم خاتون (امیر تیمور کی بیوی ) کے مقبرے کے ساتھ واقع تھا جس کے دوسری طرف  بی بی خانم کے ہاتھوں کا بنایا ہواعالیشان مسجد بھی موجود ہے . سیاب بازار میں ثمرقند کی روٹی کا بھی مزہ لے سکتے ہیں  یہ بازار چاول گوشت مصالحہ جات سبزیاں پھل اور خشک میوہ جات کا بہترین جگہ ہے یہاں سے ہم نے روایتی گرم روٹی جوپانچ ہزار پر دستیاب تھی کے ساتھ ساتھ تازہ انجیر ،انگور اور گرما خرید کر جدید مارکیٹ دیکھنے کے لیے چلے گئے یہاں سے ہم نے کرنسی بھی چینج کی اورایک ہوٹل میں کھانا کھانے گئے. کھانے میں یہاں کے مشہورقومی ڈش پلاؤ, کھایا ایک روایت کے مطابق یہ ڈش امیر تیمور کے دور میں متعارف ہوئی جس میں آج بھی  اجزا کا وہی تناسب ڈالتے ہیں جو امیر تیمور کی فوج میں شامل باورچی ڈالتے تھے. یہاں  پلائو کی تیاری میں بنیادی چیز دنبے کی چربی ہوتی ہے جس سے پلاؤ کا ذائقہ انتہائی لاجواب ہو جاتا ہے  پلاؤ پر گھوڑے کے گوشت سے تیار کئے جانے والے پارچے سجائے جاتے ہیں جو کھانے میں انتہائی لذیذ ہوتے ہیں. یہاں پر بغیر چینی کے قہوے کا رواج عام ہے .ہوٹلوں میں مخصوص چائنک اور پیالیاں رکھی جاتی ہیں جن میں گرم گرم قہوہ موجود ہوتا ہے.ان سب چیزوں سے لطف اندوز ہو کر ہم  واپس  اپنی رہائش گاہ پر پہنچ گیے. ایک دو دن آرام کرنے کے بعد ہم  نے بخارا شہر جانے کا فیصلہ کیا ٹیکسی والے نے کہا کہ تقریبا آٹھ نو گھنٹے آنے جانے کا  سفری راستہ  ہے تو لہٰذا آج نہیں کل صبح سویرے نکلتے ہیں لیکن ہمارے اصرار پر وہ راضی ہوا کہ ہمارے پاس یہاں دن کم ہے آج ہی چلتے ہیں واپسی پرتاخیر ہو جائے تو کوئی بات نہیں اور پھردن کے  دس بجے ہم بخارا کے لیے روانہ ہوئے یہ سفر بہت خوشگوار رہا  راستے میں ہر طرف ہریالی ہی ہریالی سڑک کے دونوں طرف انگور کے باغات کے ساتھ ساتھ آلو بخارا اور خوبانی کے  باغات تھے کچھ دیہات بھی نظر آ گئے  جس میں مٹی سے بنے ہوئے گھر وغیرہ اور ہر گھر کے چت ترچی بنا ہوا تھا جس سے معلوم ہوتا تھا کہ یہاں برف باری بہت ہوتی ہوگی. ٹیکسی ڈرائیور چونکہ  ایک چھوٹا سا میوزک سینٹر چلاتا تھا اس لیے وہ انڈیا اور پاکستانی گلوکاروں سے واقف تھا اور راستے میں اسی موضوع پربھی خوب گپ شپ ہوئی اور آخر کارازبکستان کا پانچواں بڑا شہر جو علم و ادب کے مرکز کے طور پر اسلامی دنیا میں پہچانے جاتے ہیں میں پہنچ گئے ایک تاریخی اور پرانی طرز  تعمیر ہوئے شہر کو دیکھ کر بہت اچھا لگا اس شہر کا سب سے بڑا تعارف امام بخاری ہے آپ کی پیدائش یہاں پر ہوئی تھی اور پھر علم کے حصول کے لیے کئی مقامات کے دورے کیے ہیں۔یہاں پر دوپہر کا کھانا کھایا اور بازار سے ہوتے ہو ئےمسجد کی طرف نکلے اس بازار کا نام چار سُو بازار ہے جس کے چار راستے ہیں  جس میں قدیم ثقافتی چیزیں فروخت ہو رہے تھے جیسے گرم ٹوپییاں ، گرم شال وغیرہ بخارا بہت ہی خوبصورت شہر ہے اور بہت ہی قدیم ہے بعض مورخین کا کہنا ہے کہ بخارا حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت سے بھی کئی سو برس قدیم ہے  امام بخاری کے مسجد اور مدرسے میں جا کر عصر کی نماز پڑھنے کا شرف حاصل ہوا  مسجد میں جوستون نصب ہیں  وہ اسی زمانے کے ہیں. بلند و بالا عمارتیں اپنی شان و شوکت کے ساتھ آج بھی قائم ہے یہاں موجود مسجد جو وسیع و عریض خوبصورت اور تاریخی  ہے اس کا نام کلیان مسجد ہے یہاں تقریبا بارہ ہزار سے زائد افراد نماز ادا کرسکتے ہیں یہاں تقریبا اندرونی صحن کے اطراف میں 208 ستون ہیں اور تقریباً 280 سے زائد چھوٹے گنبد موجود ہیں کلیاں مسجد کے سامنے میر عرب مدرسہ موجود ہے اور اس مدرسے میں آج بھی تدریس کا عمل جاری ہے اس شہر کی تیسری اہم یادگار کلیان مینار ہے جو کہ اس کی لمبائی تقریبا 50 میٹر ہے یہ تقریباً 9 صدی پہلے بنا ہوا مینار اس شہر کی پہچان ہے. اس تاریخی اور یادگار شہر کو مختصر دیکھنے کے بعد ہم واپس ثمرقند آئے اور پھر دو دن کے بعد مدینہ منورہ کے لئے روانہ ہوئیں. ثمرقند جیسے خوبصورت اور تاریخی شہر کا سفر ایک یادگار سفر تھا..اور اب اکثر کہتے ہیں کہ ثمرقند ہم تمہیں نہیں بھولے۔