نبی اکرم ﷺ کی شان رحمت

تحریر: عثمان شاہد ۔۔۔۔
ربیع الاول کے مہینہ کو نبی اکرم ﷺ سے خاص نسبت ہے۔ اس کی 12 تاریخ آپ کی تاریخ وصال ہے۔ اور ایک راۓ کے مطابق یہی آپ کی تاریخ ولادت بھی ہے۔ چنانچہ اسی نسبت سے اس دن میلادالنبی ﷺ منایا جاتا ہے۔
بلاشبہ رسول اللہﷺ سے ہر مسلمان عقیدت و محبت اور جذباتی وابستگی رکھتا ہے ۔ بنابریں ربیع الاول کے ان ابتدائی ایام میں سیرت کی محافل منعقد ہوتی ہیں، جن میں آپ کی بلند مرتبت اور عظیم الشان شخصیت کی عظمت کے پہلوؤں پر گفتگوہوتی ہے، آپ کے مناقب کا تذکرہ ہوتا ہے۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ہم نبی اکرم ﷺﷺ کی عظمت کا ادراک کریں تو یہ بات ہمارے لیے ناممکن ہے۔ ہم بس یہی کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالی کے بعد اس کائنات میں سب سے زیادہ قابل احترام ہستی حضرت محمد ﷺ کی ہے ۔’’ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر‘‘۔
اللہ تعالی نے اپنے مقدس کلام میں آپ کی عظمت کے بعض پہلوؤں کا ذکر کیا ہے، ان میں سے ایک آپ کی شان رحمت ہے۔ جس کا تذکرہ سورۃ الانبیاء میں کیا گیا ہے۔ فرمایا: ترجمہ: اور (اے نبی) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہان والوں کے لیے رحمت بنا کر ۔ [ الانبیاء: 107]۔ آپ کی ذات گرامی ہر پہلو سے رحمت ہے ۔ ہم کلیتہ اس کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے ۔ بہر حال یہ واضح ہے کہ آپ کی ذات، آپ کا پیغام ہدایت اور آپ کا عطا کردہ دین اور نظام عدل اجتماعی پوری نوع انسانی کے لیے رحمت کا سامان ہے۔ آپ کے ذریعے ہدایت کی جوروشنی پھیلی وہ انسانیت کے ہر ہر طبقے کے لیے مکمل رہنمائی ہے، خواہ وہ بڑے سے بڑا فلسفی، مفکر یا دانشور ہو یا ایک عام انسان محنت کش یا مزدور ۔ سورۃ الاعراف کی آیت 156، 157 میں پوری نوع انسانی کے لیے بلکہ قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے آپ کی رحمت کے بعض اہم پہلوؤں کو نمایاں کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے بنی اسرائیل کے استغفار کا ذکر ہے۔ جس کا پس منظر میں ہے کہ جب موسی علیہ اسلام تورات کی الواح اور شریعت پانے کی غرض سے کوہ طور پر گئے تو آپ کے پیچھے قوم نے بچھڑے کی پرستش شروع کر دی۔ یہ بہت بڑا جرم تھا۔ چنانچہ اس جرم پر قوم کو سخت سزا دی گئی۔ سزا بھی یہ تھی کہ جن لوگوں نے اس جرم کا ارتکاب کیا تھا، انہی کے عزیزوں اور رشتہ داروں نے انہیں اپنے ہاتھوں سے قتل کیا۔ اس سزا کے بعد اجتماعی استغفار کے لیے حضرت موسی علیا قوم کے ستر افراد کو لے کر کوہ طور پر تشریف لے گئے ۔ وہاں اللہ سے استغفار ہوا، اللہ تعالی نے جواب میں فرمایا: ترجمہ:’’(فرمایا کہ جو میرا عذاب ہے اسے تو جس ( مجرم ) پر چاہتا ہوں نازل کرتا ہوں ۔ اور جو میری رحمت ہے وہ ہر چیز کو شامل ہے ۔
مطلب یہ ہے اللہ کی رحمت اپنی جگہ مگر جنہوں نے خود ہی اپنے آپ کو عذاب الہی کا مستحق بنایا، وہ اس کے عذاب سے بچ نہیں سکیں گے۔ دوسرے لفظوں میں اللہ تعالی فرما رہا ہے کہ میرا دامن رحمت بڑا وسیع ہے۔آؤ، میری طرف توجہ کرو۔ آؤ، مجھ سے گناہوں کی مغفرت مانگو۔ آؤ، میرا دامن رحمت تھام لو۔ اب اگر کوئی خود ہی اس سے رجوع نہ کرے، جو عملا” طے کر دے، میں نے اس کی رحمت سے محروم رہنا ہے تو ظاہر ہے ایسے ظالم کے لیے اللہ کا عذاب پھیرا نہیں جائے گا۔ یہ اسی قسم کی بات ہے جو آپ نے ایک موقع پرفرمائی کہ ’’ہر بندہ مومن جنت میں داخل ہوگا ماسوائے اس کے کہ جو خود ہی انکار کر دے۔
صحابہ نے پوچھا: یا رسول اللہﷺ کون ہوگا ، جو جنت میں جانے سے انکار کرے۔ آپ نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہو جائے گا اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے گویا خود ہی جنت میں جانے سے انکار کر دیا۔ اللہ تعالی نے آگے فرمایا: میں لکھ لوں گا اس رحمت کو ان لوگوں کے لیے جو تقوی اختیار کریں گے اور زکوۃ دیں گے اور جو ہماری آیات پر ایمان رکھتے ہوں گے ۔‘‘ مفسرین کا کہنا ہے کہ اللہ تعالی کی ایک رحمت عام ہے اور ایک خاص ۔ یہاں رحمت خاص کا ذکر ہورہا ہے۔ اس کے مستحق وہ لوگ ہوں گے جو تقوی اختیار کریں گے، زکوۃ دیں گے یعنی حقوق اللہ اور حقوق العباد کا خیال رکھیں گے اور اللہ کی تمام آیات پر ایمان لائیں گے ۔ اور اس رحمت کے اصل مستحق وہ لوگ ہوں گے جن کا ذکر اگلی آیت میں آیا ہے جہاں فرمایا: ترجمہ:’’ وہ لوگ جو میرے رسول امی کا اتباع کریں گے ۔ جن (کے اوصاف ) کو وہ اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں ۔‘‘ نبی اکرم ﷺ کی رحمت للعالمینی ویسے تو عام ہے لیکن رحمت خاص ان لوگوں کے لیے ہے جو آپ پر ایمان لانے والے ہیں اور آپ کی اتباع کرنے والے ہیں۔ یعنی اگر کوئی پہلے سے یہودی یا عیسائی تھا مگر اس دور میں پیدا ہوا جو نبی کی رسالت کا دور تھا تو وہ آ نحضرت پر ایمان لائے گا اور آپ کا اتباع کرے گا تو ہی اللہ کی رحمت کا مستحق ٹھہرے گا۔ آپ ﷺ کی شان کا اندازہ اس حدیث سے لگائیں!
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن پوری کائنات کے سامنے ایک شخص کو بلایا جائے گا اس کے سامنے ننانوے رجسٹر اس کی برائیوں کے رکھ دیئے جائیں گے ہر رجسٹر اتنا لمبا چوڑا پھیلا ہو گا جتنی نظر کام کرتی ہے۔ اللہ تعالی کی طرف سے سوال ہوگا۔ ان برائیوں میں سے کسی ایک برائی کا بھی انکار کر سکتا ہے؟ میرے نگران فرشتوں نے کہیں ظلم تو نہیں کیا۔وہ جواب دے گا۔ اے میرے رب ایسا نہیں ہے۔ پھر سوال ہوگا کوئی عذر ہوتو پیش کر دیا کوئی نیکی ہوتو سامنے لاؤ !! بندہ ڈرتے ڈرتے جواب دے گا یا رب کوئی عذر بھی نہیں اور کوئی نیکی بھی نہیں۔ اللہ تعالی فرمائیں گے، تیری ایک نیکی ہمارے پاس محفوظ ہے۔ یاد رکھ آج تجھ پر ظلم نہیں کیا جائے گا ۔ چنانچہ ایک کاغذ کا ٹکڑا نکالا جائے گا اس میں لکھا ہوگا اشهد ان لا إله إلا الله واشهدان محمدا عبده ورسوله بندہ عرض کرے گا ۔ یا اللہ! ان بڑے بڑے گناہوں کے اخبار کے سامنے اس ٹکڑے کی کیا حیثیت ہے ۔ جواب ملے گا ۔ آج تجھے علم نہیں ہوگا ۔چنانچہ گناہوں کے دو بڑے بڑے رجسٹر ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ دیے جائیں گے اور کاغذ کا ٹکڑا وسرے پلڑے میں رکھ کر وزن کیا جائے گا۔تو وہ کھلے والا پلڑا بھاری ہو جائے گا۔