ذمہ دار شہریوں کی خوبیاں، خامیاں اور فرائض

تحریر: علی حمزہ ۔۔۔۔۔
شہریت کسی بھی شخص کی ایک قانونی حیثیت ہوتی ہے جس سے ایک شخص کو کسی بھی ملک یا ریاست کا باشندہ تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن جس شخص کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی اس کو بے وطن شخص کہا جاتا ہے۔ اردو زبان میں لفظ قومیت کو بھی شہریت کے مترادف لفظ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے.
ہم میں سے ہر کوئی اپنی ذمہ داریوں کو ڈیوٹی سمجھ کر نہیں عبادت سمجھ کر نبھائے اور اپنی کردار و گفتار کوسیرت نبوی ؐ کے سانچے میں ڈھالے تو یقینامعاشرے کی تقدیر وتصویر بدل جائے گی جس معاشرے سے ہم اور آپ اوب چکے ہیں وہی معاشرہ ہمارے اور آپ کے لئے سکون قلب اور روح پر ور ثابت ہوگا۔ آپ جس مقام پر بھی ہیں آپ پر کچھ ذمہ داریا ں عائد ہوتی ہیں اور اس ذمہ داری کا احساس معلم انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح دلایا ” تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کے ماتحت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ (رواہ البخاری) اگر آپ باپ ہیں تو اولاد کی تربیت کی ذمہ داری آپ پر ہے۔ اس کو اچھی تربیت دینا اس کی تعلیم پر توجہ دینا۔ وہ اسکول میں کن دوستوں کے ساتھ رہتا ہے۔ ہر روز اس کی ہر حرکت کا جائزہ لیں اور اسے اگر آپ نے ایک اچھا اور معاشرے کا ذمہ دار شہری بنا دیا تو آپ کا حق ادا ھو گیا اور اگر اولاد ہیں تو والدین کی ذمہ داری آپ پر ہے ”اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو”۔ (القرآن) ارشاد ربانی ”تیرے رب نے یہ فیصلہ کر دیا کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو”۔
اولاد ہونے کے ناطے آپ کا فرض اور ذمے داری ہے کہ والدین کی زندگی میں ان کے لیے دعائے خیر کرے اور وفات کے بعد ان کے لیے دعا مغفرت کرے۔ ماں باپ اولاد کے لیے اپنی خواہشات کو قربان کر دیتے ہیں مگر اپنی اولاد کی ہر خواہشات کو پوری کرتے ہیں۔ اس لیے اولاد کا حق ہے کہ ان کی خدمت میں کوئی کمی نہ آنے دے۔ اگر آپ حاکم ہیں تو آپ کو چاہیے کہ آپ اپنی رعایا کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ اور اگر آپ شوہر ہیں تو آپ کو چاہیے اپنی بیوی کے حقوق اچھی طرح سے ادا کریں اور ایک اچھا شوہر ہونے کا ثبوت دیں۔ آپ معلم ہیں تو طلبہ کی تعلیم وتربیت کی ذمہ داری آپ پر ہے۔ ایک معلم ہی طلبہ کو اچھے اور برے میں فرق بتاتا ہے۔ اس کو زندگی کے مقصد سے آگاہ کرتا ہے۔ ایک معلم اگر اپنے پیشے سے مخلص ہو گا تو وہ اپنے شاگردون کو اچھی اخلاقی تربیت دے سکے گا۔ اسے کبھی غلط رستے کی تعلیم نہ دے۔ اسے تعلیم ہی سے آپ وہ ہر کام کر سکتے ہیں جو آپ کرنا چاھتے ہیں۔اسی طرح ایک طالبعلم پر اساتذہ کی توقیر وعزت کرنے جیسی ذمے داری عاید ہوتی ہے۔ استاد ہمیں وہ سب کچھ سیکھاتا ہے جو ہمارے والدین بھی نہیں سیکھا سکتے۔ استاد کی عزت ایسے کرو جیسے اپنے والدین کی کرتے ہو۔
ایک دفعہ مشہور خلیفہ ہارون الرشید نے دیکھا کہ اس کے بیٹے مامون اور امین اس بات پر جھگڑ رہے ہیں کہ کون استاد کے جوتے اٹھا کر لائے گا۔آخر کار استاد کے کہنے پر وہ ایک ایک جوتا اٹھا لایا۔ اگلے دن ہارون الرشید نے دربار سوال کیا کہ آج سب سے زیادہ معزز شخص کون ہے، سب نے کہا کہ خلیفہ ہی سب سے معزز شخص ہے لیکن ہارون الرشید بولا کہ آج سب سے معزز شخص میرے بیٹوں کا استاد ہے جس کا جوتا اٹھانے پر میرے بیٹے فخر محسوس کرتے ہیں۔
بہرحال اگرآپ ایک ذمہ دار شخص ہیں اور آپ کی ذمہ داری کا دائرہ کبھی سمٹ کر چند افراد اور آپ کے گھر کی چار دیواری تک محدود ہوجاتا ہے۔ آپ چاہیں یا نہ چاہیں یہ ذمہ داری خود بخود آپ کے اوپر ایک مسلم ہونے ناطے عائد ہوتی ہے اور آپ کو ہرحال میں یہ ذمہ داری نبھانی ہوگی۔ جب تک آپ بقید حیات ہیں اس سے نجات نہیں ہاں موت ہی آپ کو اس سے خلاصی دے سکتی ہے۔ لیکن اگر آپ نے اپنے جیتے جی اپنی ذمہ داریوں کو کماحقہ ادا نہیں کیا اور تغافل و تساہل سے کام لیا تو مرنے کے بعد بھی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا اور عدالت قہاری و جباری سے آپ بالکل بچ نہیں سکتے۔ بڑے سے بڑاظالم اور گناہ گار دنیا کی عدالت سے بچ سکتا ہے اور بچ جاتاہے۔ منصفوں کو خرید سکتا ہے گواہوں کو اپنا حمایتی بنا سکتا ہے، وکیلوں کو رشوت دے کر اپنے دعوے کو صحیح ٹھہرا سکتا ہے۔ یا تو پھر عدالت کی نگاہوں سے روپوش ہوسکتا ہے اور ہوجاتا ہے مگر وہ عدالت جس کا عادل اور منصف سمیع اور بصیر ہو ، علیم و خبیر ہو اس کی عدالت سے کون بچ سکتا ہے۔
اگر ہمارے اندر خوف الٰہی پیدا ہوجائے اور قیامت کے ہولناک منظر کا استحضار ہوجائے تو یقینا ہمارے لیے ہر ذمہ داری کو نبھانا آسان ہوجائے گا۔ ہم با خوشی اپنے حقوق کو ادا کر کے ایک مثالی معاشرے کوقائم کرنے کا پابند ہوجائیں گے۔ دوسروں پر تنقید کرنے کے بجائے اور کسی کی نقطہ چینی کے بجائے اپنے ہی گریبان کو جھانکیں اور سب سے پہلے اپنی اصلاح ہم خود کریں اور جن لوگو ں سے ہم ملتے جلتے ہیں ان سے اچھے اخلاق سے ملیں خواہ وہ اپنے ہوں یا پرائے ، ہم پہلے اپنی ہر طرح کی ذمہ داریاں اٹھائیں گے تو ہی ملک ترقی کی راہ پر گامزان ہو گا۔
ایک دوسرے کو کہنے کی بجائے ہمیں خود احساس ہونا چاہیے کہ ہم کس طرح اپنے گھر ماحول معاشرے شہر اور ملک کو ترقی کے قابل بنا سکتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے ہم اپنی ذات سے بالاتر ہو کر اجتماعی مفاد کے لیے کام کریں۔ ہر کٹھن مرحلے میں ایک ساتھ مل کر ساری مشکلات کا مقابلہ کرے تو ہی ہمارا ملک ترقی کی راہ پہ گامزان ہو گا۔ ایک دوسرے کو اس کی ذمہ داریوں کا احساس دلانے سے اچھا ہے ہم خود اپنی ذمے داریوں کو سمجھے اور انہیں اچھی طرح پوری کرنے کی کوشش کرے۔ ہم اس ملک کے شہری ہیں ہمارا فرض ہے اس ملک کے لیے ہمیشہ بے غرض ہو کر اور خلوص دل سے سوچے اور اس کے لیے کام کرے۔
ہم مسلمان ایک خدا ایک رسول ایک کتاب پر یقین رکھتے ہیں پس یہ لازمی اور ناگزیر ہے کہ ہم ملت کی حیثیت سے بھی ایک ہوں اور خاص کر اپنی ذمے داریوں کا احساس بھی کریں کیونکہ احساس سے عاری انسان پتھر کی ماند ہوتا ہے۔
کوڑاکرکٹ کے متعلق تو بات کرنا ہی فضول ہے کیونکہ اپنے گھر کا کچڑا دوسروں کے درواذوں کے آگے پھینکنا تو ہماری قوم کا روایتی اور پسندیدہ مشغلہ ہے۔اور اس روایت کو ذندہ رکھنے میں ہر عمر ،ہر طبقے اورحتیٰ کہ پڑھے لکھے لوگوں کی بھی محنت شامل ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے ایسے کام ہیں مثلاً موٹر سائیکل یا گاڑی پر سفر کرتے ہوئے بغیر پیچھے دیکھے پچکاری پھینکنا، نوسموکنگ ایریا میں سگریٹ نوشی کرنا ، دوسروں کو شرارتاً غلط راستہ بتانا،باغوں میں جا کر پھولوں کو توڑنا جیسی عادتیں شامل ہیں۔ لیکن ایک اچھے شہری کو اپنے اندر یہ شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ ہر صورت ماحول کا احترام کرے۔ اور آخر میں صرف اتنا کہوں گا کہ اگر کوئی شہری اپنے ملک کے فائدے اور معاشرے کی فلاح کے لئے کوئی اچھا کام نہیں کر سکتا تو بے شک نہ کرے لیکن خدا کے لئے یہاں کچھ برا بھی نہ کرے۔ ذمے دار شہریوں کی خوبیوں میں شامل ہے کہ وہ ان سب چیزوں سے احتیاط کرے۔ایک ذمہ دار شہری ہونے کی حیثیت سے ہمیں ان سب چیزوں سے بچنا چاہیے اور اپنے ماحول کو خوشگوار بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔