حیا ایمان کا حصہ ہے

تحریر: علی حمزہ ۔۔۔۔۔۔۔
شرم و حیا اسلام کا زیور ہے ۔اسلام دینِ فطرت ہے جو ہمیشہ انسانیت کی بھلائی اور عظمت و تعظیم کا درس دیتا ہے ۔اعلی ٰاخلاق و کردار کی تکمیل کے لیے حیا کوا یمان کا حصہ بھی قرار دیا گیا ہے ۔ ایک وقت تھا جب معاشرے میں انسانیت سوز رویہ روا رکھا جاتا تھا عورت کی عزت کو تار تار کیا جاتا اور اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر عورتوں کی عصمت دری کی جاتی، جانوروں سے بھی بدترین سلوک کیا جاتا تھا۔اﷲ تعالی کو اس سسکتی بلکتی انسانیت پر رحم آیا اور اس انسانیت کی راہنمائی کیلئے انبیاء کے امام حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور قرآن کریم جیسی بے مثل ولاریب کتاب سے نوازا ۔ انسانیت کی معراج شرم و حیا کی دولت میں پنہاں ہے ۔ اﷲ تعالی نے قرآن کریم میں مسلمانوں میں برائی اور بے حیائی کے فروغ کی انتہائی سخت الفاظ سے مذمت فرمائی اور ارشاد باری تعالیٰ ہے ”بیشک وہ لوگ جو اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے ۔”(سورۃ النور ) قرآن کریم میں جہاں مرد و عورت کو شرم وحیا کا پیکر بن کر نگاہیں جھکا کررہنے کی تلقین کی گئی وہاں عورت کی عفت کے تحفظ کے لیے غیر محرم مرد وں سے پردے کا حکم بھی دیا گیا ہے ۔ اور امام الانبیاء صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے بھی بے شمار مقامات پر شرم و حیا کی فضیلت واہمیت کو بیان فرمایا ہے جن میں سے مشت نمونہ از خروارے احادیث مبارکہ نقل کی جارہی ہیں ۔ امام الانبیاء صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :” ایمان کے ستر سے زائد درجے ہیں اور حیا بھی ایک اہم درجہ ہے ”۔( مسلم) امام الانبیاء صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :” اگر کسی مسلمان میں حیا ختم ہو جائے تو جو مرضی آئے کرتا پھرے ”۔(مشکوۃ) امام لانبیاء صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :” حیا اور ایمان آپس میں لازم و ملزوم ہیں اگر ان میں سے کوئی ایک چلا جائے تو دوسرا بھی اٹھ جاتا ہے ۔” (ترمذی ) ​
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حیا کاخصوصیت کے ساتھ اس لیے ذکر فرمایا ہے کہ جو اخلاق حسنہ ایمان کے لیے مبادی کی حیثیت رکھتے ہیں ان میں حیا بھی ہے بلکہ حیا ایمان کا سرچشمہ ہے کیونکہ انسان جب اپنے وجود اور اپنی صفات کمال پر غور کرتا ہے تو اسے اللہ پر ایمان لانا پڑتا ہے۔اگرانسان ان انعامات واحسانات کے باوجود، جو اللہ نے اس پر فرمائے ہیں،اللہ کی ذات پر ایمان نہیں لاتا تو یہ اس کی بہت بڑی بے حیائی ہے ،گویا ان احسانات کے پیش نظر اللہ پر ایمان لانا حیا ہی کا نتیجہ ہے۔یعنی حیا پہلے ایمان کا سبب بنی،ایمان لانے کے بعد پھر ایمان کی مضبوطی کا ذریعہ ثابت ہوئی کیونکہ انعامات کامسلسل شکریہ ادا کرتے رہنا بھی حیا ہی کا نتیجہ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کواشرف المخلوقات بناکر فطری خوبیوں سے مالامال کیا ہے ان خوبیوں میں سے ایک خوبی شرم وحیا ہے۔ شرعی نقطہٴ نظرسے شرم وحیا اس صفت کا نام ہے جس کی وجہ سے انسان قبیح اور ناپسندیدہ کاموں سے پرہیز کرتاہے دین اسلام نے حیاء کی اہمیت کو خوب اجاگر کیا ہے تاکہ مومن باحیاء بن کر معاشرے میں امن وسکون پھیلانے کا ذریعہ بنے۔ نبی اکرم ﷺ نے ایک مرتبہ ایک انصاری صحابی کو دیکھا جو اپنے بھائی کو سمجھا رہا تھا کہ زیادہ شرم نہ کیا کرو آپ ﷺ نے سنا تو ارشاد فرمایا : دعہ فان الحیاءمن الایمان ۔ (مشکوة -2-431) ترجمہ : اس کو چھوڑدو کیونکہ حیاء ایمان کا جزء ہے۔ دوسری حدیث میں ہے : (2-421) ترجمہ : حیاء خیر ہی کی موجب ہوتی ہے اور ایک روایت میں ہے کہ حیاء سراسر خیر ہے ۔گو انسان جس قدر باحیاء بنے گا اتنی ہی خیر اس میں بڑھتی جائے گی ۔حیاء ان صفات میں سے ہے جن کی وجہ سے نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ترجمہ : حیاء ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں جانے کاسبب ہے اور بے حیائی جفاء(زیادتی) ہے اور جفا دوزخ میں جانے کا سبب ہے ۔ حیاء کی وجہ سے انسان کے قول و فعل میں حسن و جمال پیدا ہوتا ہے لہٰذا باحیاء انسان مخلوق کی نظر میں بھی پرکشش بن جاتا ہے اور پروردگار عالم کے ہاں بھی مقبول ہوتا ہے۔
حضرت عبداﷲ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:” عورت پردہ میں رہنے کی چیز ہے کیوں کہ جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اسے بہکانے کے لئے موقع تلاش کرتا ہے ۔”( ترمذی ) عورت کے پر دہ کو اس قدر اہمیت دی گئی ہے کہ اس کے لئے عبادت میں بھی پردہ کا حکم دیا اور بے پردہ جگہ پر عبادت کرنا منع فرمایا گیا ہے ۔ حضرت عبداﷲ بن مسعودرضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:” عورت کا کمرے میں نماز پڑھنا گھر (آنگن) میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور (اندرونی) کوٹھڑی میں نماز پڑھنا کمرہ میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے ”۔( سنن ابو دائود ) عورت جس قدر بھی پردہ کرے گی اسی قدر بہتر ہے ، صحن میں نماز پڑھنے کے مقابلہ میں کمرہ میں نماز پڑھنا افضل ہے اور کمرہ میں نماز پڑھنے کے مقابلہ میں کمرہ کے اندر بنی ہوئی کوٹھڑی میں نماز پڑھنا زیادہ افضل ہے ۔ جیسے کسی بھی مرد کا کسی خاتون پر نظر ڈالنا درست نہیں اور پہلی نظر کی معافی کے بعد دوسری نگاہ ڈالنے سے منع کیا گیاہے ایسے ہی خواتین کو بھی حکم ہے کہ وہ مردوں پر نظر نہ ڈالیں۔ جیسا کہ امام الانبیاء صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھی تھی اور آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حضرت میمونہ رضی اﷲ عنہا بھی تھیں۔ سامنے سے حضرت عبداﷲ بن ام مکتوم رضی اﷲ عنہ (جو نابینا تھے ) تشریف لائے اور یہ واقعہ پردہ کا حکم دیئے جانے سے بعد کا ہے ، حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :” ان سے تم دونوں پردہ کرو، ہم نے عرض کیا یارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کیا یہ نابینا نہیں ہیں؟حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں وہ تو نابینا ہیں کیا تم دونوں بھی نابینا ہو ”؟( سنن ابو دائود) اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ خواتین کو بھی مردوں سے پردہ کرنا چاہئے اور نگاہ نہیں ڈالنی چاہئے چاہے وہ مرد بصارت سے محروم ہی کیوں نہ ہوں۔
ہمیں امام الانبیاء صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مطابق شرم وحیا کا پیکر بن زندگی بسر کرنی چاہیے ۔