جنسی ہراسگی و زیادتی سے متاثرہ عورت کی کردار کشی

تحریر :یاسر اقبال خان ۔۔۔۔
دنیا بھر میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جنسی ہراسگی و زیادتی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے خواتین سے جنسی ہراسگی و زیادتی کا مطلب ہے کہ کسی بھی خاتون کو اس کی مرضی کے خلاف چھونا، اخلاقیات سے گری گفتگو کرنا اور اس کے شکل و صورت سے متعلق غیر اخلاقی جملوں کا استعمال کرنا، کسی خاتون کو بے بس و اکیلی پاکر علیحدگی میں ملنے پر مجبور کرنا، امتحان میں پاس کرنے یا روزگار دینے کا جانسا دے کر جنسی ہراسگی و زیادتی کی شرط رکھنا۔ پاکستان میں خواتین سے بد سلوکی و بے حرمتی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے ہر نئے دن کے ساتھ نیا واقع سامنے آتا ہے اور پاکستان میں جنسی ہراسگی و زیادتی سے چھوٹے بچے بھی محفوظ نہیں۔ بہت سے واقعات سامنے آتے ہیں جس میں کوئی درندہ صفت نوجوان نہ صرف عورت کو بلکہ چھوٹے بچوں کو جنسی ہراسگی یا جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے ہیں۔ ایسے افسوس ناک واقعات پیش آنے کے بعد لوگوں کے درمیان جنسی ہراسگی و زیادتی سے متاثرہ عورت کے کردار پر بحث چڑھ جاتی ہے کہ وہ عورت اکیلے کیوں تھی اس نے کپڑے ٹھیک نہیں پہنے تھے یا کہا جاتا ہے کہ وہ دن کے یا رات کے اس وقت بازار کیوں آئی تھی، گھر سے اکیلے کیوں نکلی تھی۔ لوگ اس طرح کے نا مناسب، بےمقصد و غیر اخلاقی بحث کرنے لگ جاتے ہیں۔
حال ہی میں بلکل اس طرح ایک بےمقصد و غیر مناسب بحث لاہور کی ایک رہائشی عائشہ اکرم سے متعلق سامنے آئی جو 14 اگست 2021ء کو لاہور کے گریٹر اقبال پارک میں یوم آزادی کے موقع پر آئی چونکہ وہ ایک ٹک ٹاکر ماڈل تھی تو اس کے مداح جنکی تعداد 400 لوگوں پر مشتمل تھی اس سے ملنے لاہور کے گریٹر اقبال پارک میں آئے۔ موقع دیکھتے ہی ان 400 افراد کے ہجوم نے عائشہ اکرم کو جنسی ہراسگی و تشدد کا نشانہ بنایا لیکن اس لڑکی کے ساتھ یہ افسوس ناک واقعہ پیش انے کے باوجود ہر دوسرا شخص اس لڑکی کو اپنے ساتھ جسنی ہراسگی کی زمہ دار ٹھہرا رہا ہے جو بلکل ایک بد اخلاقی، غیر ضروری اور بے مقصد بیان بازی کے زمرے میں آتا ہے۔ اس سے پہلے موٹروے جنسی زیادتی کے واقعے میں بھی اس متاثرہ عورت کی کردار کشی سامنے آئی کہ وہ اکیلی کیوں تھی تو کیا پاکستان اور دنیا میں بداخلاق لوگ اور جنسی ہراسگی و زیادتی کرنے والے اتنے زیادہ ہیں کہ اب کوئی عورت، ٹک ٹاکر یا ماڈل لڑکی اپنے شہر میں بھی نہیں گھوم سکتی؟ نہیں بلکہ ہمارا مہذب و ثقافت ہمیں کسی عورت کے ساتھ جنسی ہراسگی سے روکتا ہے۔ ہمارے ہاں ایسے بہت سے واقعات ہمارے سامنے ہیں کہ کسی خاتون کے ساتھ جنسی زیادتی، تشدد یا ہراسگی کا واقع پیش آیا ہو اور لوگ اس کی کردار کشی کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک طرف تو عورت کے ساتھ جنسی تشدد اور ہراسگی کا افسوس ناک واقع پیش آتا ہے تو دوسری طرف اسی ہی عورت کے کردار پر سوالات اٹھادئے جاتے ہیں جو کہ بلکل غلط قول و فعل ہے ۔ ہمارے لوگوں کا یہ رویہ متاثرہ خاتون کو ذہنی اذیت دینے کا ایک سبب ہے کہ ہم یہ نہیں سوچتے کہ جسنی ہراسگی سے اس متاثرہ عورت اور اس کے خاندان کو کتنی ذہنی دباؤ کا سامنا ہوگا۔
جنسی ہراسگی سے متاثرہ عورت کی کردار کشی کرنے کی وجہ سے بہت سے خواتین اور ان کے خاندان والے مجرموں کے خلاف کیس ہی رجسٹر نہیں کرتے کیونکہ ان کو پھر ایسے سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ یہ متاثرہ عورت بازار کیوں گئی، گھر سے کیوں اکیلی نکلی، اس کے کپڑے کیوں ٹھیک نہیں تھے۔ یہ کردار کشی عورت کو تو ذہنی اذیت پہنچادیتا ہے اس کے ساتھ جنسی ہراسگی و زیادتی کرنے والے مجرموں کو بچانے کی ایک کوشش بھی ہے۔ دنیا بھر میں اکثر خواتین جنسی تشدد، ہراسگی اور ریپ کے خلاف آواز نہیں اٹھاتی کیونکہ ان کے اردگرد لوگ ان کے کردار پر سوالات اٹھانا شروع کردیتے ہیں اور متاثرہ عورت کی تصویر مظلوم کے بجائے ظالم بنا دیتے ہیں۔ یہ تو صرف عام لوگوں کی بات ہے عدالت جاکر وکلا بھی ان کے کردار پر سوالات اٹھا دیتے ہیں اور ایسی عورت کو انصاف دینے کے بجائے ہر دوسرا و تیسرا بندہ اس کے کردار پر تبصرے شروع کر دیتا ہے۔ اگر ہم نے اپنا یہ رویہ تبدیل نہیں کیا تو جنسی ہراسگی سے متاثرہ عورتوں کو کبھی انصاف نہیں ملے گا۔ جنسی زیادتی کے کیسز میں تفتیش کرتے وقت خاتون کے کردار کو زیر بحث نہیں آنا چاہئے۔ جنسی ہراسگی سے متاثرہ کسی بھی عورت کے لئے غیر اخلاقی الفاظ کا استعمال بند ہونا چاہئے اور اس کا ساتھ دینا چاہئے تاکہ اس کو انصاف ملے۔
عورت کا لباس یا اسکا پیشہ جنسی ہراسگی کا سبب بلکل بھی نہیں کیونکہ چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ بھی جنسی زیادتی و ہراسگی کے واقعات پیش آرہے ہیں یہاں بات صرف خواتین کی نہیں۔ کسی خاتون کو زمہ دار ٹھہرنا کہ وہ رات کو اکیلے سفر کر رہی تھی یا ٹک ٹاکر تھی، ماڈل تھی، اس کا لباس اور چلن ٹھیک نہیں تھا تو کیا پاکستان میں کسی اکیلی عورت یا ماڈل کے ساتھ بد اخلاقی کی اجازت ہے؟ کیا ہمارا معاشرہ اسلامی تعلیمات سے ہٹ گیا ہے ؟ نہیں بلکہ اسلام میں تو کسی پڑوسی کو تکلیف پہنچانا حرام ہے۔ یہ سب کردارکشی کر کے اگر ہم کسی خوش فہمی میں ہیں کہ ہم کسی عورت کے ساتھ جنسی ہراسگی و زیادتی کرنے والے مجرموں سے مختلف ہے تو نہیں بلکہ ہم جنسی زیادتی و ہراسگی سے متاثرہ عورت کو مظلوم سے ظالم بنا رہے ہیں اور اس جیسے تمام خواتین کو برے لوگوں کے رحم و کرم پر چھوڑ رہے ہیں۔
پاکستان میں جنسی ہراسگی و زیادتی پر ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی ایک رپورٹ ہے جس کے مطابق پاکستان میں ہر دو گھنٹے میں زیادتی کا ایک کیس سامنے آتا ہے اور 24 گھنٹوں میں ہر آٹھ گھنٹے بعد اجتماعی زیادتی کا ایک کیس سامنے آتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو جنسی ہراسگی کے واقعات میں عمر اور جنس کی کوئی حد نہیں ایسے واقعات بچے، بوڑھے، مرد عورت، زندہ یا مردہ کے ساتھ ہو رہے لیکن اتنے زیادہ کیسز کے باوجود جنسی ہراسگی کے صرف 9 فیصد کیس درج ہوتے ہیں اور 91 فیصد کیسز کبھی درج بھی نہیں ہوتے۔ کیس درج نہ ہونے کی وجوہات کی طرف اگر دیکھا جائے تو اس میں قانونی پیچیدگی کے ساتھ سے متاثرہ عورتوں و بچوں کی کردار کشی بھی ہے سب کو یہ ڈر ہوتا ہے کہ اگر میں نے اپنے ساتھ پیش انے والے جنسی ہراسگی کے خلاف آواز اٹھایا تو دوسرے لوگ میری اور میرے خاندان کی ہر طرح کی کردار کشی کرینگے۔ ساری زندگی بدکردار ہونے کا لیبل لگے گا اور معاشرتی دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا۔