محرم الحرام کی فضیلت

تحریر : انجینئر عنصر اعوان ۔۔۔۔۔
محرم کا مہینا عظمت والا اور بابرکت مہینا ہے، اسی ماہ مبارک سے نئے اسلامی سال کا آغاز ہوتا ہے۔ محرم کو محرم اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ حرمت والا مہینا ہے اور اس کی حرمت کی تاکید کے لیے اسے محرم کا نام دیا گیا ہے۔ اسے محرم الحرام بھی کہتے ہیں۔ ”محرم ”کے معنی ہیں ‘حرمت والا’ اور ”الحرام” کے معنی ‘قابلِ احترام’ کے ہیں۔ گویا محرم الحرام کے معنیٰ ”حرمت والے قابلِ احترام مہینے” کے ہوئے۔
اسلام سے پہلے بھی اس مہینے کو انتہائی قابل احترام سمجھا جاتا تھا۔ اسلام نے یہ احترام جاری رکھا۔ اس مہینے میں جنگ و جدل ممنوع ہے۔ اسی حرمت کی وجہ سے اسے محرم کہتے ہیں۔ محرم الحرام کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس کا شمار حرمت والے مہینوں میں ہوتا ہے۔ حرمت والے مہینے کل چار ہیں، جن کے نام بالترتیب یہ ہیں:
(۱): محرم الحرام، (۲): رجب، (۳): ذوالقعدہ، (۴): ذوالحجہ۔
ان مہینوں کو حرمت والا اس لیے کہتے ہیں کہ ان میں ہر ایسے کام سے جو فتنہ و فساد، قتل وغارت اور امن وسکون کی خرابی کا باعث ہو، بالخصوص منع فرمایا گیا ہے۔
اور محرم ان حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے جن کے بارے میں اللہ رب العزت کا فرمان ہے:
“یقینا اللہ تعالٰی کے ہاں مہینوں کی تعداد بارہ ہے اور (یہ تعداد) اسی دن سے قائم ہے جب سے آسمان و زمین کو اللہ نے پیدا فرمایا تھا، ان میں سے چارحرمت و ادب والے مہینے ہیں، یہی درست اور صحیح دین ہے، تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پرظلم وستم نہ کرو ، اورتم تمام مشرکوں سے جہاد کرو جیسے کہ وہ تم سب سے لڑتے ہیں ، اور معلوم رہے کہ اللہ تعالٰی متقیوں کے ساتھ ہے۔
ایک بار کسی نے آ قاصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عرض کی کہ یا رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرض نماز کے بعد کون سی نماز افضل ہے اور رمضان کے فرض روزے کے بعد کس مہینے کے روزے افضل ہیں، حضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ا ر شاد فرمایا:
“فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز نماز تہجد ہے اور رمضان کے بعد افضل روزے محرّم الحرام کے ہیں۔
محرم الحرام کی دسویں تاریخ کو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کی تخلیق فرمائی۔ یوم عاشوراء کو جنت پیدا فرمائی۔ اور یوم عاشوراء کو سفینہ نوح جودی پہاڑ پر ٹھہرا۔ یوم عاشوراء کو ہی حضرت موسیٰ اور ان کی قوم نے فرعون سے نجات حاصل کی اور اللہ نے فرعون اوراس کے لشکر کو غرق کیا۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم محرم کی دسویں تاریخ کو خود بھی روزہ رکھتے تھے اور دوسروں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیتے تھے. (بخاری و مسلم)
اگر ایک طرف محرم الحرام فضائل وبرکات کا مہینہ ہے تو دوسری طرف اس مہینہ کے ساتھ بہت سے دردناک تاریخی واقعات بھی وابستہ ہیں جن کی کربناکی سے امت مسلمہ کا ہر فرد بے چین و مضطرب ہوجاتا ہے اور تاریخ اسلام میں محرم الحرام کا صفحات مظلومان کربلا کے لہو سے رنگین نظر آتے ہیں. اہل بیت کی اولوالعزمی سیدنا حسین ؓ سردارِ نوجوانان جنت کی حق گوئی وبے باکی۔ صبر و تحمل، عزیمت و استقامت کی داستان ہر مسلمان کو عزم و حوصلہ اور باطل کے سامنے سینہ سپر رہنے کی ہمت بخشتی ہے تو دوسری جانب یزیدی فوج کی سنگدلی، بے رحمی، بے حسی، خاندانِ رسول کی بے حرمتی، مظلومان کربلا کی تذلیل و تحقیر اور ان کو ناحق تہہ تیغ کرنے کی چنگیزی حرکات سے اسلام کی روشن تاریخ داغدار دکھائی دیتی ہے.
شہادت حسین سے پہلے اسی ماہ محرم کی پہلی تاریخ کو امیرالمومنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کا عظیم سانحہ پیش آیا، وہ عمر ؓ جن کی شہادت یقینا واقعہ کربلا سے کم نہیں ہے اسلئے کہ اسلام کو رفعت و عظمت کی بلندیوں تک پہنچانے والے عمر فاروق ؓ تھے جن کو برادر رسول اور مطلوب اسلام ہونے کا شرف حاصل ہے. اور جن کی ذات میں رسول اللہﷺ کو صفات نبوت نظر آتی ہیں کہ ارشاد نبویﷺ ہے:
میرے بعد کوئی نبی نہیں اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو یقینا عمر ؓ ہی نبی ہوتے۔
اس ماہ کی دسویں تاریخ یعنی یوم عاشوراء کاروزہ رکھنا۔اس بارے میں بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے یہ روایت منقول ہے کہ رسول اللہﷺ جب مدینہ تشریف لائے تواہل کتاب کواس دن کاروزہ رکھتے ہوئے پایا، جب اس کا سبب دریافت کیا گیا توانہوں نے کہا کہ اس دن بنی اسرائیل نے حضرت موسی علیہ السلام کی معیت میں فرعون کے ظلم سے نجات پائی تھی اور فرعون اپنے ساتھیوں سمیت دریائے نیل میں غرق ہوا، اس لیے بطور شکرانہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس دن کا روزہ رکھا تھا، حضورﷺ نے فرمایا پھر ہم اس کے تم سے زیادہ حق دار اور حضرت موسیٰ ؑکے زیادہ قریب ہیں۔چناںچہ حضورﷺ نے اس دن کاروزہ رکھا اور دوسروں کو بھی حکم فرمایا۔ (صحیح بخاری)
البتہ مسلم شریف میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے یہ بھی روایت ہے کہ: جب رسول اللہﷺ نے عاشوراء کے دن خود روزہ رکھنے کومعمول بنایا اور صحابۂ کرام ؓ کو اس کاحکم دیا تو بعض صحابہؓ نے عرض کیا کہ: یا رسول اللہﷺ! اس دن کو یہود و نصاریٰ بڑے دن کی حیثیت سے مناتے ہیں اور یہ گویا ان کاقومی و مذہبی شعار ہے تو آپﷺ نے فرمایا: ان شاء اللہ جب اگلاسال آئے گا تو ہم نویں محرم کو بھی روزہ رکھیں گے تاکہ تشبہ والی بات باقی نہ رہے. حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ لیکن اگلے سال ماہ محرم آنے سے قبل ہی رسول اللہﷺ وصال فرما گئے۔ تو اس روایت میں یہودکے ساتھ اشتباہ سے بچنے کے لیے یہ بھی فرمایا کہ: اگر آئندہ سال رہاتوان شاء اللہ ہم اس کے ساتھ نویں تاریخ کاروزہ بھی رکھیں گے۔ اس لیے فقہاء لکھتے ہیں کہ اس کے ساتھ نویں تاریخ کا روزہ بھی ملا لینا چاہیے، بہتر یہ ہے کہ نویں، دسویں تاریخ کا روزہ رکھا جائے، اگر نویں کا روزہ نہ رکھ سکے تو پھر دسویں تاریخ کے ساتھ گیارہویں تاریخ کا روزہ ملا لینا چاہیے، تاکہ مسلمانوں کا امتیاز برقرار رہے۔ اگرچہ بعض اکابر علماء کی تحقیق یہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں چونکہ یہود و نصاریٰ اس دن کا روزہ نہیں رکھتے، بلکہ ان کا کوئی کام بھی قمری حساب سے نہیں ہوتا، اس لیے اب اس معاملے میں یہود کے ساتھ اشتراک اور تشابہ نہیں رہا، لہٰذا اگر صرف دسویں تاریخ کا روزہ رکھا جائے، تب بھی حرج نہیں۔ اس ماہ کی دسویں تاریخ کے روزے کی فضیلت بھی صحیح احادیث میں رسول اللہﷺ سے منقول ہے ،چنانچہ مسلم شریف میں حضرت ابوقتادہ انصاری ؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا” میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ اس دن کے روزے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ فرما دے گا”۔ “آمین”.