امریکی انخلاء اور افغانستان

تحریر: ذیشان خضر ۔۔۔۔۔
‏غیرت ہے بڑی چیز جہان تگ و دَو میں
‏پہناتی ہے درویش کو تاج سردارا
امریکیوں کے بارے میں چرچل کی ایک مشہور کہاوت ہے۔۔۔امریکن کو بات سمجھ آتی ہے لیکن تمام آپشن استعمال کرنے کے بعد۔۔۔
افغانستان میں بھی امریکہ نے بیس سال میں 226 ٹریلین ڈالرز خرچ کیا دنیا کے جدید ترین اسلحہ سے لیس ہو کر اپنے اتحادی نیٹو فورسز کے ساتھ افغانستان پر چڑھ دوڑا امریکہ نے افغانستان میں ڈیزی کٹر بم ٹام ہاک لیزر گائیڈڈ میزائل بی 52 طیارے جدید ترین ڈرون طیارے جنہوں سیٹلائیٹ کی مدد حاصل تھی اس کے علاوہ مدر آف آل بم MOAB بھی استعمال جس کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ جہاں پہاڑوں پر یہ پھینکا گیا وہ پہاڑ میدان میں تبدیل ہو گئے غرض کون سا ایسا آپشن تھا جو امریکہ نے افغانستان میں استعمال نا کیا ہو مگر نتیجہ وہی رہا جو پہلے دن سے سمجھدار لوگ امریکہ کو سمجھا رہے تھے
2001 میں کابل پر قبضہ کرنے کے بعد امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ کولن پاول نے فخریہ انداز میں کہا تھا “امریکہ نے افغانستان پر دس دن قبضہ کر لیا “
اگلے ہی دن سوویت یونین کے آخری صدر گوربا چوف نے امریکہ کو متنبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ سوویت یونین نے بھی افغانستان میں دس گھنٹے میں قبضہ کر لیا مگر نکلتے نکلتے دس سال لگ گئے تھے
امریکہ بھی اپنی غرور اور تکبر کی وجہ سے اس دلدل میں پھنستا ہی گیا امریکہ یہاں صرف افغانستان کے لیے نہیں آیا تھا بلکہ اس علاقے میں اپنی بالادستی کے قائم کا مقصد لے کر آیا تھا چین اور پاکستان کو دبانے کے لیے بھارت کو افغانستان میں لا کر بیٹھا دیا جس نے پاکستانی سرحد کے ساتھ ساتھ ایک درجن سے زائد کونسل خانے کھولے جو کہ پاکستان مخالف سرگرمیوں کے لیے لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال ہوتے تھے بھارت نے اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری وہاں کے انفراسٹرکچر پر کی
امریکہ اور بھارت نے ملکر افغانستان میں پاکستان مخالف کٹھ پتلی حکومت کا قیام یقینی بنایا ۔ جو کہ امریکہ اور بھارت کے پلکوں کے اشاروں پر کام کرتی رہی۔ افغانستان میں جس ملک کو سب سے زیادہ ناکامی کا سامنا کرنا پڑا وہ بھارت ہے بھارت کی اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری ڈوب گئی جو اس نے پاکستان مخالفت میں وہاں لگائی تھی
افغانستان میں جنگ نے ایک پرانا سبق دوبارہ سیکھایا کہ ‏⁦‪فتح کے تاج انہی کے سر سجتے جو خود کو اسکے اہل ثابت کرتے ہیں جنگیں جیتنے کے لیے جدید تریں ٹیکنالوجی بہترین ٹریننگ وغیرہ ثانوی باتیں ہیں جنگیں جتنے کے لیے حوصلہ ہمت اور صبر سے کام لینا پڑھتا ہے
جب امریکہ نے 2001 میں افغانستان پر حملہ کیا تو اس وقت میں کالج میں تھا اور میرے اسلامیات کے استاد ایک سابق طالبان تھے جو روس کے ساتھ جنگ میں شریک رہے.
ہم روز لائبریری سے اخبار اٹھا لاتے اور انہیں تنگ کرنے کے لیے بتاتے کہ اج فلاں جگہ قبضہ ہو گیا جس دن کابل پر رات کو بمباری شروع ہوئی میں نے صبح کلاس میں داخل ہوتے ہی کہا اب تو جو طالبان کابل میں ہیں وہ بھی مارے جائیں گے
انہوں نے بااعتماد طریقے سے کہا کابل سے امارت اسلامی پہلے ہی نکل چکے ہیں
دو ہفتے بعد پتہ چلا امریکہ پانچ دن خالی کابل پر بمباری کرتا رہا
یہ خبر دیکھ کر میں نے ان سے پوچھا کیا ابھی بھی امارت اسلامیہ سے رابطے میں ہیں جو اتنے اعتماد سے آپ نے بتایا تھا کہ امارت اسلامیہ کابل میں نہیں.
انھیں نے جواب دیا” نہیں مگر ان کی لڑائی کی تربیت کا مجھے پتہ ہے امارت اسلامی گوریلا جنگ کے ماہر ہیں امریکہ کو اس دلدل میں پھنسا دیں گئے اور چھاپہ مار جنگ کریں گئے
امریکہ کبھی بھی فاتح کی حیثیت سے افغانستان سے نہیں نکل سکتا یہ بات لکھ لو”
امریکہ اپنی تمام تر ناکامیوں اور ہزیمت کا زمہ دار پاکستان اور اسکی خفیہ ایجنسیوں کو سمجھتا ہے ۔امریکہ افغانستان میں داخل ہوا تو ساتھ اپنے ساتھ پاکستان کا نیا نقشہ ساتھ لایا تھا 35 ملکوں کی خفیہ ایجنسیاں اس منصوبے کو مکمل کرنے کے لیے اسکے ساتھ تھی مگر پاکستان کی سیکورٹی ایجنسیوں نے انہیں کیسے روکا اور ذلت آمیز طریقے سے بھاگنے پر مجبور کیا یہ اب ٹھکی چھپی بات نہیں۔۔۔
امریکہ بھارت اور انکے ہمنوا جو میڈیا میں ہیں ان کی پاکستانی فوج اور ایجنسیوں کا نام لے لے کر سینہ کوبی ہی دیکھ لیں اندازہ ہو جائے گا کہ انہیں کتنی کاری ضرب لگائی گئی ہے خفیہ ایجنسیاں کا مقصد ہی اپنے ملک کے مفادات کا تحفظ ہے انٹیلیجنس ایجنسیاں تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے ملکی مفاد کا تحفظ کرتیں ہیں
پاکستان اور پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کے خلاف پروپیگنڈا کے لیے افغانستان صدارتی محل میں سے دستاویزی ثبوت ملے ہیں جس میں ایک اسی افراد پر مشتمل ٹیم بنائی گئی جس کا کام پاکستان کو بدنام کرنا ہے اس میں ملک کے معروف صحافیوں اور سیاست دانوں کے نام بھی سننے میں آ رہے ہیں
طالبان نے بھی اس بار کافی سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کیا ہے انہوں نے جس علاقے کا انتظام سنبھالا عام معافی کا اعلان کر دیا جس کا اثر یہ ہوا کہ کابل سمیت پورے ملک میں بغیر کسی مزاحمت کے سنبھال لیا شیعوں کے جلسوں کو باقاعدہ سیکورٹی فراہم کی گئی عورتوں کو تعلیم کے حصول میں کسی قسم کی پابندی نہیں لگائی۔ امارت اسلامیہ نے حکومت سازی میں تمام گروپوں کو شامل کرنے کا عندیہ دیا ہے اور ایک قومی حکومت بنانے کے خواہاں ہیں
اس بار لگتا ہے امارت اسلامی کو مقصد اقتدار پر قبضہ نہیں بلکہ مضبوط حکومت بنانا ہے