اولمپکس میں پاکستان پیچھے کیوں؟

تحریر: سید اعتزاز گیلانی ۔۔۔۔۔
ٹوکیو اولمپکس گیمز جو 23 جولائی 2021 کو شروع ہوئی اور 8 اگست 2021 کو اختتام پذیر ہوئی۔ 205 قوموں نے مختلف مقابلوں میں حصہ لیا۔ یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ نے سب سے زیادہ 39 سونے کے تمغے حاصل کیے اور عوامی جمہوریہ چین بھی پیچھے نہیں رہا اور 38 سونے کے تمغوں کے ساتھ امریکہ کے ساتھ ساتھ رہا مگر کل ملا کر امریکہ کو سب سے زیادہ تمغے حاصل ہوئے۔ یوں ترقی یافتہ ممالک کھیلوں کے میدان میں اپنی کامیابی سے باور کروا گئے کہ وہ واقعی میں ترقی یافتہ ہونے کا حق رکھتے ہیں۔ اب ہم اپنے پیارے ملک پاکستان کی طرف آتے ہیں جس کو اللہ نے ہر نعمت سے نوازا ہے۔ یہ وہ ملک ہے جو اپنی ایک الگ پہچان رکھتا ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس ملک میں رہنے والے لوگ اپنے اندر بے انتہا فن چھپائے ہوئے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے وہ فن کسی خاطر میں نہیں آ پا رہا اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے ؟ اس پر آپ بھی سوچئے ہم بھی سوچتے ہیں۔ اتنی ذہین اور با صلاحیت قوم ہوتے ہوئے بھی ہم اس قدر تنزلی کا شکار ہو چُکے ہیں کہ اولمپکس مقابلوں میں یہ قوم کوئی گولڈ میڈل نہیں لے سکی۔ ایسا کیوں ہوا ؟ اور کیسے ہوا ؟ یہ وہ سوال ہیں جن کے جوابات بحیثت قوم کا فرد ہونے کے ناطے یہ ملک ہم سے پوچھ رہا ہے۔
پاکستان اولمپکس فیڈریشن کے صدر سید عارف حسن نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ پاکستان میں ایسا نظام موجود نہیں جوایتھلیٹ کی صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنے سال ہوگئے ہیں تو یہ کس کی زمہ داری ہے کہ وہ نظام میں بہتری لانے کے لیے کام کرے یقیناً انہی لوگوں کی جو ان سب چیزوں کے لیے اتنی مراعات حاصل کر رہے ہیں مگر بدقسمتی سے اس میں ملک کوئی بھی خود احتساب کے لیے پیش نہیں کرنا چاہتا تو ایسے میں بہتری کی امید کیسے کی جا سکتی ہے۔ پاکستان میں مختلف ٹی وی پروگرام میں لوگوں سے کرتب کروائے جاتے ہیں ہیں مگر کوئی مؤثر طریقۃ کار نہیں ترتیب دیا جاتا جس سے کوئی اثر انگیز نتیجہ اخذ ہو سکے۔ ہم کوئی ایسا نظام کیوں نہیں لا پا رہے جو با صلاحیت نوجوانوں کے ٹیلنٹ کو باہر لا سکے۔ ہمیں یہ کرنا ہوگا صوبائی اور ضلعی سطح پر ٹیمیں تشکیل دینا ہونگی جو نوجوانوں کے ٹرائلز لیں اور با صلاحیت نوجوانوں کو چن ایک پلیٹ فارم مہیا کریں جہاں اُنکو تیار کیا جائے اور پھر دیکھیں یہ قوم کیسے اپنی شناخت بناتی ہیں کیسے سونے کے تمغے جیتے نہیں جاتے یہ ہو سکتا ہے اگر ہم سستی کو چھوڑ کر مخلص ہو کر ملک کے لیے کام کریں یہ نا ممکن چیز نہیں ہے ایسا ہو سکتا ہے اور ضرور ہوگا ان شاء اللہ۔ ترقی یافتہ قومیں ہمیشہ اپنے ملک کو مقدم رکھتی ہیں اور ملک کے ساتھ مخلص ہو کر اُسکی ترقی کے لیے کام کرتی ہیں۔ جس دن ہم اپنے ملک کے لیے ایمانداری اور مخلصی کے ساتھ کام کریں گے ان شاء اللہ وہ دن دور نہیں جب ہمارا بھی شمار ترقی یافتہ اقوام میں ہوگا۔