پاکستان اپنی بقا کی آخری جنگ لڑ رہا ہے

تحریر:خالد خان ۔۔۔۔
افغانستان میں اب تک کی پیش رفت عین پاکستانی مفادات کے مطابق ہے اور افغانستان کے صوبے اور اضلاع دھڑا دھڑ مجاہدین کے قبضے میں معجزاتی طور پر نہیں آرہے ہیں بلکہ یہ ایک مربوط حکمت عملی کے مثبت نتائج ہیں ۔ امارت اسلامیہ افغانستان کی مسلسل کامیابیاں اب پراپیگنڈے کی حدود سے نکلتے ہوئے اپنی حقیقت منوا چکے ہیں جو امریکہ مخالف بیانیئے کی ایک طرح سے ببانگ دہل تصدیق ہے ۔ اب تک کے حالات اور واقعات سے یہ بات بالکل ثابت ہو چکی ہے کہ امریکہ اور اسکے اتحادی افغانستان میں بہت بری طرح شکست کھاچکے ہیں ۔ امریکہ کی اپنی بقا اور یک جہتی بھی اس وقت انتہائی خدشات سے دوچار ہے ۔ موجودہ حالات کے تناظر میں پاکستان کے جاسوسی اداروں کی گزشتہ منصوبہ بندیاں اور قربانیاں اب درست لگ رہی ہیں اور یوں عسکری اور عوامی بہا ہوا خون پورے ایشیاء میں ایک نئے بہار کی آبیاری کرچکی ہے ۔ یوریشئین اتحاد ایک بہت بڑے اقتصادی ، ثقافتی اور انسانی کامیابیوں کے ساتھ روشن صورت میں سامنے آنے کو ہے اور صدیوں بعد تاریخی ، جغرافیائی ، نظریاتی اور ثقافتی رشتے اپنے اصل کے ساتھ جڑنے جارہے ہیں ۔ وسطی ایشیائی ممالک بشمول ایران اور افغانستان کے تمام وحدتوں کے درمیان کوئی متنازعہ معاملات نہیں ہیں اور صرف ہندوستان اپنی ہٹ دھری کے باعث اس موثر ایشیائی اتحاد سے تاحال باہر ہے اور اگر اس نے اپنی پالیسیوں پر نظرثانی نہیں کی تو نقصان میں رہے گا ۔ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان مسلہ کشمیر کے حل کے بعد تمام تر عسکری وسائل انسانی ترقی اور فلاح و بہبود پر خرچ ہونگے مگر اسکے لیئے ہندوستان کو اپنے ہزار سالہ خوف سے نکلنا ہوگا ۔ بدلی ہوئی دنیا میں وسطی ایشیاء سے کوئی تیموری ، غزنوی اور ابدالی لشکریں سومنات اور تخت دہلی کو فتح کرنے کے لیئے نہیں ائینگے اور مستقبل چاراور محبتوں، دوستیوں اور انسانی ترقی اور فلاح و بہبود کے سندیسے لیئے ہوئے ہے ۔ ہندوستان کو ترجیحی بنیادوں پر پاکستان کے ساتھ مسلہ کشمیر ، پانی اور دیگر تنازعات گفت و شنید کے ذریعے ختم کرنے ہونگے اور چین کے ساتھ بھی تمام سرحدی تنازعات کا پرامن تصفیہ کرنا ہوگا۔ دوسری طرف ازبکستان ایک عظیم ریل منصوبے پر کام کا آغاز کرچکا ہے جو ازبکستان سے براستہ افغانستان پشاور تک جدید ریلوے ٹریک بچھانا ہے جو صدیوں پرانے تجارتی روابط دوبارہ سے استوار ہونے کی نوید ہے ۔ کلکتہ سے ریلوے کے ذریعے تمام وسطی ایشیاء سے گزرتے ہوئے یورپ تک تجارت اور سیاحت کے بےپناہ مواقع میسر آ جائینگے جو پورے ایشیاء کو خود کفالت ، خود انحصاری اور خوشحالی کی طرف لےجاسکتا ہے ۔ سمندری تجارت کے لیئے گوادر ، کراچی اور چاہ بہار کی بندرگاہیں بھی میسر ہونگی جو بےتحاشا معاشی ترقی کی ضامن ہونگی ۔ بی آر آئی اور سی پیک کے تحت چین پورے خطے اور پاکستان میں ایک مضبوط انفرا سٹرکچر کے قیام کے منصوبے پر کام کر رہا ہے جسکے بعد پورے خطے میں غربت اور افلاس کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہے گا ۔ پشاور کی بی آر ٹی ، راولپنڈی اسلام آباد کی میٹرو، لاہور کی اورینج ٹرین اور کراچی کی سرکلر ریلوے سی پیک ہی کے ضمنی منصوبے ہیں ۔ اس وقت وطن عزیز میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے متعدد بڑے اور جدید منصوبے اسی ہی عظیم پلاننگ کے اجزا ہیں ۔
اس فیصلہ کن مرحلے پر پاکستان دشمن قوتیں بھی خاموش تماشائی نہیں ہیں بلکہ وہ اپنے ترکش کے آخری تیر آزما رہے ہیں اور یہی اصل جنگ ہے جسے پاکستان کو ہر قیمت پر جیتنا ہوگا ۔ پاکستان بوجوہ یہ جنگ جیتتی ہوئی نظر نہیں آرہی ہے ۔ ملک کی تاریخ میں قومی نفاق اور ناراضگیاں جتنی آج ہیں اس سے قبل کبھی بھی نہیں دیکھی گئی ہیں ۔ معیشیت آج جتنی زمین بوس ہے اس سے پہلے کبھی بھی اتنی بری حالت نہیں رہی تھی ۔ سیاسی قوتیں جتنی منتشر اور منقسم آج ہیں اس سے قبل کوئی مثال نہیں ملتی ۔ خارجہ پالیسی جس بری طرح سے ناکام ہوچکی ہے اس سے پہلے کبھی سوچا بھی نہیں گیا تھا ۔ جس درجے کی بری طرز حکمرانی ہے اس طرح کی حکمرانی بنانا ریپبلیکس میں بھی دیکھنے کو نہیں ملتی ۔ ریاستی دماغ نے اس کا حل یہ نکالا ہے کہ ہر مخالف آواز کو خاموش کیا جائے ، ہر گلا گھونٹا جائے ۔
کیا اس طرح کی حکمت عملی پاکستان کو بچا سکی گی؟ منطقی جواب تو نہیں میں ہے البتہ دو تسلیاں ضرور ہیں ۔ ایک تسلی یہ کہ جو لوگ پاکستان کو بچاتے ہوئے یہاں تک لیکر آئے ہیں پاکستان کو اس مقام سے آخری منزل تک لیجانا انکے بائیں ہاتھ کا کام ہے ۔ دوسری تسلی اللہ پاک کی ذات ہے جو تمام ناشکریوں کے باوجود بھی ہمیشہ سے پاکستان پر مہرباں رہا ہے ۔
انسانی دانش کے مطابق بہرحال پاکستان کو آخری جنگ جیتنے کے لیئے اپنے گھر کو پہلے درست کرنا ہوگا اور یہ درستگی فوج کو اقتدار اپنے ہاتھوں میں لیئے بغیر ممکن نظر نہیں آرہی ہے ۔ راقم الحروف مسلسل اس تصور کی ترویج اس بنیاد پر کر رہا ہے کہ چونکہ ہم امریکن بلاک سے نکل کر اب یوریشئین بلاک کا حصہ ہیں لہذا امریکہ اور مغرب ویسے بھی جلد یا بدیر اعلانیہ طور پر ہمارے مدمقابل ہونگے لہذا اب انکی پرواہ نہیں کرنی چاہیے ۔ دوسری طرف یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ امیدوں کی آخری منزل افواج پاکستان ہی ہے ۔