جہیز معاشرے کا ناسور

تحریر : انجینئر عنصر اعوان ۔۔۔۔۔
جہیز ایک ناسور ہے جو ہمارے معاشرے میں کینسر کی طرح پھیل چکا ہے۔ جہیز کی لعنت نے لاکھوں بہنوں اور بیٹیوں کی زندگیوں کو جہنم بنا رکھا ہے۔ ان کی معصوم آنکھوں میں بسنے والے رنگین خواب چھین لئے ہیں۔ ان کی آرزؤں، تمناؤں اور حسین زندگی کے سپنوں کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ انہیں ناامیدی، مایوسی اور اندھیروں کی ان گہری وادیوں میں دھکیل دیا ہے جہاں سے اْجالے کا سفر ناممکن ہو چکا ہے۔
دیکھی جو گھر کی غربت تو چپکے سے مر گئی
ایک بیٹی اپنے باپ پہ احسان کر گئی
یہ ایک رسم ہے جس سے صرف غریب والدین زندہ درگور ہو رہے ہیں اور اس آس پر زندہ ہیں کہ کوئی فرشتہ صفت انسان اس لعنت سے پاک دو جوڑا کپڑوں میں ان کے لخت جگر کو قبول کر لے. لیکن ہمارے معاشرے میں جو رسمیں رواج پا چکی ہیں وہ وقت گزرنے کے ساتھ اتنی مضبوط ہو چکی ہیں اور اپنی جڑیں اتنی پھیلا چکی ہیں کہ ان سے چھٹکارا پنانا ناممکن ہے۔ کتنی لڑکیاں جہیز کے پورے ہونے کے انتظار میں اپنے والدین کے گھر بیٹھی رہتی ہیں ایک ایسے معاشرے میں جہاں آئے دن غیرت کے نام پر کبھی ماں بہن اور بیٹیوں کو قتل کیاجاتا ہے وہاں جہیز کے لین دین کے معاملے میں ہماری غیرت کیوں بے خبری کی چادر اوڑھے سو جاتی ہے حتیٰ کہ بعض واقعات میں تو یہاں تک دیکھا گیا ہے کہ جہیز کی آگ شادی کے بعد بھی بجھنے میں نہیں آتی لڑکی والے شادی کے بعد بھی طرح طرح کے مطالبے کرتے ہیں اور اگر ان کو پورا نہ کیا جائے تو زندگی کوآزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہاں تک من مرضی کے مطابق جہیز نہ دینے کی صورت میں لڑکی کو اپنی زندگی سے ہاتھ دھونا پڑ جاتا ہے.
کہاں سے آئی ہے لوگو۔۔۔ بتائو رسم ِ جہیز
خدا کے دین میں اس کا کوئی سراغ نہیں
اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے جو تمام شعبہٴ زندگی پرمحیط ہے۔ زندگی کے تمام امور و معاملات میں اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل اطاعت کا نام اسلام ہے۔ اللہ کی نازل کردہ ہدایات اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت دونوں مل کر شریعت بنتی ہے۔ اسلام نے نکاح کو جتنا آسان بنایا ہے موجودہ معاشرتی ڈھانچے نے اسے اتنا ہی مشکل بنادیا ہے، نکاح کے بابرکت بندھن پر بے شمار رسومات، تقریبات، اور فضول اخرجات کے ایسے بوجھ لاد دیے گئے ہیں کہ ایک غریب بلکہ متوسط آمدنی والے شخص کے لیے بھی وہ ایک ناقابلِ تسخیر پہاڑ بن کر رہ گیا ہے اور اس میں اکثر اور بیش تر ایسی رسومات کا ارتکاب کیا جاتا ہے جن کا اسلام سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں، بلکہ وہ ہندوانہ رسمیں ہیں، اور غیر اقوام سے مشابہت کی ممانعت بے شمار احادیث میں بیان ہوئی، حدیثِ مبارک میں ہے: ” سب سے بابرکت نکاح وہ ہے جس میں سب سے کم مشقت (کم خرچہ اور تکلف نہ) ہو” ۔
تمام اہل ایمان کو چاہیے کہ اپنے تمام امور ومعاملات میں اسلامی شریعت کی پیروی کریں، ایسے تمام جاہلانہ اور غیراسلامی رسوم و رواج اورطورطریقوں کو نہ اپنائیں جو شریعت اسلامی کے خلاف ہوں اوراسلامی تعلیمات سے ٹکراتے ہوں۔ شادیوں میں جن جاہلانہ اور غیر اسلامی رسوم کا رواج عام ہوچکا ہے، ان میں ایک “جہیز” ہے۔ معاشرے میں جہیز جیسی لعنت کو ختم کرنے کیلئے والدین کو بھی سختی سے عمل کرنا ہو گا۔ وہ عہد کریں کہ نہ جہیز دیں گے اور نہ لیں گے۔ لوگوں کو بھی بتایا جائے کہ جہیز مانگنا ہی جر م نہیں بلکہ اپنی حیثیت سے بڑھ کر تحائف کے نام پر جہیز دینا یا اپنی جائیداد وغیرہ فروخت کرکے جہیز کے مطالبات پورے کرنا بھی ایک اخلاقی جرم ہے۔ اور جہیز کی رسم کے خلاف لوگوں کی سوج کو تبدیل کیا جائے اسے معاشرے کا ناسور اور بدنما داغ سمجھا جائے تاکہ جہیز جیسی لعنت سے چھٹکارا حاصل ہو۔ ایسے سخت قوانین واضع کئے جائیں جس سے جہیز کے لین دین کو روکنا ممکن ہو سکے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو جہیز جیسی لعنت سے چھٹکارا حاصل کرنے اور شریعت اسلامی پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے. تاکہ معاشرے سے اس ناسور کا مکمل خاتمہ ہو جائے. آمین