مایوسی کیوں گناہ ہے

تحریر: مہر خان ۔۔۔۔
‏آخر مایوسی کیوں گناہ ہے اس سوچ کو سوچنے اور پھر لفظ دینے کا اس لیے سوچا کہ میرا مشاہدہ ہے کہ اکثر انسان اس ایک قدم پر آ کر ہمت ہار جاتے ہیں جو انکی مشکلات بھری کاوشوں کا آخری قدم ہوتا ہے جس سے آگے انکی کامیابیوں کا کامیاب ترین سفر شروع ہونے کو ہوتا ہے
مایوسی ہے کیا؟ اور آخر یہ اتنی بری چیز کیوں ہے اس چیز کو جانچنا بہت ہی ضروری ہے کیونکہ اکثر انسان ایک چھوٹی سی ناکامی پر دو لمحے پریشان بیٹھا سوچ رہا ہوتا ہے تجزیہ کر رہا ہوتا ہے تواسکے آس پاس کے دوست احباب کہنے لگتے ہیں تم مایوس ہو رہے ہو نہی وہ مایوسی نہی ہوتی بلکہ وہ اپنا تجزیہ کر رہا ہوتا ہے اپنےتجربے کی روشنی میں جانچنا چاہ رہا ہوتا ہے کہ اگلی کوشش میں کیا نہی کرنا ‘ اس نے کہاں غلطی اسکی نشاندہی کر رہا ہوتا ہے
اصل مایوسی وہ ہوتی ہے جو وہ دوست احباب اس انسان کے اندر اپنے زہر بجھے الفاظ سے انڈیل جاتے ہیں کہ تم سے نہیں ہوا؟ تم نہیں کر سکے؟ تم نہیں کر سکتے تم میں کمی’ ہے ‘ تم اتنا کیوں سوچ رہے ہو’ کسی ناکامی پر رو کیوں رہے ہو؟ ‘ اب تو تم نہی کر پاو گے یہ سب کسے جانے والے جملے یہ کہے جانے والے جملے یہ دراصل مایوسی ہے
یقین مانیے کسی بات کو سوچنا’ رو، دینا ‘ پریشان ہونا یہ سب فطری ہے اور وقتی کیفیت ہوتی ہے وہی انسان اگر اسکو آپ ناکامی کا احساس مت دلائیں’ الفاظ کے زیر کی بجائے دو بول حوصلے کے دو لفظ بول دیں تو اگلی ہی کوشش میں کامیاب ترین ثابت ہو گا
لہذا پہلے فرق جانیے تھک کر چند لمحے بیٹھ جانا اور مایوس ہو جانے میں فرق ہوتا ہے
مایوسی وہ گھنا جنگل ہے جس میں ایک مرتبہ انسان کھو جائے تو اس سے نکلنے میں اکثر ساری زندگی گزر جاتی ہے اکثر ہی انسان اس کیفیت کو سمجھ بھی نہی پاتا کیونکہ اس کے اردگرد کے لوگ اسکو سمجھنے کی بجائے اسکو جج کرنے لگتے ہیں اسکے متعلق منفی رائے بنانے لگتے ہیں اور پھر اسکو سمجھانے اسکو یہ بتانے کے لیے تم تو بڑی منفی سوچ کے مالک ہو گئے تم تو منفی شخصیت کے مالک نکلے جیسے جملے کہنے لگ جاتے ہیں جو کہ اکثر لوگوں کو مزید پریشان اور صرف ہلکی سی ناکامی کی سوچ کے بجاے مایوسی کا شکار ہو کر ذہنی مریض بنا دیتا ہے اب دیکھیے ذرا سی تکلیف سے وہ انسان آپ کی اس کے متعلق منفی شخصیت کا خاکہ بنا لینے کے خوف سے تنہا رہنے لگتا ہے وہ اپنے انتہائی قریبی لوگوں سے بھی اپنے اندر کی کیفیات چھپانے لگتا ہے حالانکہ یہ انسانی فطرت اور ضرورت ہے کہ بات کی جائے کسی کو حوصلہ دیا جائے کسی سے کچھ سیکھا جائے جب ہم کسی کو بےجا اور بےحساب تنقید کا نشانہ بنانے لگتے ہیں تو وہ انسان خود کو جتنا بھی بچائے مایوسی کی کیفیت کسی کمزور لمحے اسکو جھکڑ ہی لیتی یے اور مایوسی گناہ ہے
تو کیوں نہ آج تخیہ کر لیں کہ ہم اپنے معاشرے سے مایوسی کو ختم کر کے دم لیں گے تو آئیے چند لفظوں کو چند مثبت لفظوں سے بدل دیکھتے ہیں
“ناکامی کو ایک اور کوشش” “نہی کر سکے کو نہی ہو سکا اگلی بار” نہی کر سکتے کو تم کر لو گے” تم اتنا سوچ کیوں رہے ہو کو چلو دیکھتے ہیں ہماری کوشش میں کہاں کمی رہ گئی”
“کیا تم مایوس ہو گئے ہو؟ کو اللہ کہتا ہے
لا تقنطو
مایوس مت ہو”
ایک مثبت انسان بنیے ایک مثبت معاشرہ تشکیل دیجیے ایک قابل انسان ایک قابل قوم خودبخود بن جائے گی