حیاتیاتی جنگ کے اگلے مورچے

تحریر:خالد خان ۔۔۔۔
انسان سے خطرناک جاندار آج تک دنیا میں کوئی دوسرا پیدا نہیں ہوا ہے ۔
جب اللہ تبارک و تعالی نے آدم علیہ السلام کے تخلیق کے بعد فرشتوں کو سجدہ کرنے کو کہا تو فرشتوں نے رب تعالی کو مخاطب کرتے ہوئے رائے زنی کی کہ اے خالق کائنات نے یہ آدم بھی دنیا میں آباد ہو کر خون بہائے گا جیسے اس سے قبل آپ کے بھیجے ہوئے مخلوقات نے کیا تھا ۔ رب ذوالجلال نے فرشتوں کو فرمایا کہ مجھے ان باتوں کا بھی علم ہے جو تم نہیں جانتے اور آدم علیہ السلام اور فرشتوں کے مابین زہنی آزمائش کا ایک مقابلہ کروایا جس میں حضرت آدم علیہ السلام سرخرو ہوئے اور فرشتے آدم کو سربسجود ہوگئے جبکہ شیطان نے سجدہ ریز ہونے سے اس دلیل پر انکار کیا کہ وہ آگ کا بنا ہوا ہے جبکہ آدم کا خمیر مٹی سے ہے ۔
شیطان کے اس انکار سے دنیا میں انسان کے بھیجنے کا آغاز ہوا اور یوں شیطان اور رحمن کی تاقیامت جاری رہنے والی ایک جنگ چھڑ گئی ۔
کائنات میں بیک وقت شیطانی اور رحمانی قوتیں سرگرم عمل ہیں ۔ شیطانی قوتیں انسانی ناف میں قیام پزیر ہوتی ہیں اور ان کی غذا ناری ہوتی ہے جبکہ رحمانی قوتوں کا مسکن انسانی قلب ہوتا ہے اور ان کی غذا نوری ہوتی ہے ۔ جو انسان اپنے وجود میں مقیم جس قوت کو نازو نعم سے پالتا رہتا ہے وہی اس پر حاوی ہو جاتی ہے ۔ بعض انسان دونوں قوتوں کو برابر زندہ رکھتے ہیں اور یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو گناہ اور ثواب کے کام بیک وقت سرانجام دیتے رہتے ہیں ۔ دوکان پر بھیٹے ملاوٹ شدہ اشیائے خوردونوش فروخت کرتے رہینگے لیکن مانگنے والے کو خالی ہاتھ نہیں لوٹائینگے اور اذان ہوتے ہی مسجد بھی روانہ ہونگے ۔ خیر اور شر کا یہ تمثیل انتہائی دلچسپ ہے ۔
اللہ تبارک و تعالی کی پیدا کردہ تین مخلوقات کا جائزہ ان سطور میں پیش کیا جاتا ہے تاکہ آنے والے بحث کو سمجھنے میں آسانی رہے ۔ فرشتوں کو خدائے لازوال نے عقل عطا کی ہے مگر انہیں نفس سے نہیں نوازہ ہے ۔ جانوروں کو نفس ودیت کی ہے مگر عقل سے انہیں بے بہرہ رکھا ہوا ہے ۔ اسی اساس پر دونوں کو ہر طرح کی معافی دی گئی ہے ۔ فرشتے سے نفس کی عدم موجودگی میں لغزش سرزد ہونے کا کوئی امکان ہی نہیں ہے جبکہ عقل ندارد ہونے کے طفیل جانور سے کوئی باز پرس نہیں ۔ انسان کی پوری زندگی گویا پل صراط پر جاری سفر ہے کہ عقل و نفس دونوں کا مالک بنایا گیا ہے اور جزا و سزا کے نتیجے میں جنت و جہنم کا حقدار ہے ۔ اسی عقل کے بنا پر انسان کو اشرف المخلوقات کا رتبہ بھی دیا گیا ہے ۔ لوگوں کی اکثریت اس غلط فہمی میں بھی مبتلا ہے کہ انسان تمام مخلوقات میں افضل و اشرف ہے ۔ درحقیقت انسان اکثریت میں اشرف و افضل ہے مگر اقلیت میں بعض دیگر مخلوقات انسان سے بھی اشرف ہیں جن کا تفصیلی ذکر کسی اور مضمون میں کیا جائے گا ۔
ہمارا مکالمہ اب اس منزل میں داخل ہوچکا ہے جہاں عقل ، علم اور شعور کے بنا پر ہم انسان کی عظمت کو تسلیم کرنے کا اصول اور پیمانہ طے کر چکے ہیں ۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر عقل ہے کیا چیز؟
کیا عقل سرمایہ عظیم اور گنج کل ہے یا اس سے بھی کوئی قیمتی شے وجود رکھتی ہے؟
عقل و دانش ہمیں میسر وہ ذریعہ ہے جسکے ذریعے ہم کم مضر چیزوں کا انتخاب کرتے ہیں ۔ عقل کوئی ایسا پیمانہ اور لاٹھی نہیں ہے کہ جسکے ذریعے آپ کامل و کامیاب زندگی گزار سکتے اور پس از زندگی کسی منور مقام پر فائز ہوسکتے ہیں ۔
اس تناظر میں یقینا سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر افضل و اعلی صلاحیت کیا ہوسکتی ہے اگر عقل ، شعور اور علم و آگہی نہیں ہے؟
اصل انسانی قوت مطہر قلب ہے کیونکہ قلب کا جانچنے کا پیمانہ عقل کے پیمانے سے مختلف ہوتا ہے ۔ عقل حواس حمسہ کا مختاج ہوتا ہے اور جو دیکھتا ، سنتا، سونگھتا ، اور چھوتا ہوا محسوس کرتا ہےاسےہی حق اور سچ سمجھتا ہے اگر چہ وہی سب سے بڑا جھوٹ ہوتا ہے ۔ سورج مشرق سے طلوع ہوتا ہے اور مغرب میں غروب ہوتا ہے ۔ یہی سچ ہم زندگی بھر دیکھتے اور سنتے ہیں مگر یہی سب سے بڑا جھوٹ ہے کیونکہ نہ سورج غروب ہوتا ہے اور نہ ہی طلوع ہوتا ہے بلکہ ایک ہی جگہ پر ساکن ہے ۔
تو پھر سچ کیا ہے اور سچ کو کیسے تلاش کیا جاسکتا ہے؟
سچ کو جاننے کے لیئے حواس حمسہ سے اوپر جانے کی ضرورت ہوتی ہے اور ایک ایسے حس کو پانے کی حاجت ہوتی ہے جو قلب کو روشن کرتے ہوئے انسان کو نئے جہانوں کی سیر کراتا ہے ۔ اس حس کو آپ بھلا صوفی کی مستی ، درویش کی دولت ، فقیر کی دنیا ، ذاکر کی سلطنت ، عاشق کی آہ اور معشوق کی نہ سمجھے یا اسے روحانیت اور تصوف کہے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔
انسانی جبلت ، فطرت ، ہوس، نفس اور خام خیالی نے جسے وہ عقل و دانش سمجھتا ہے دنیا کو اختتام سے قبل ایک خطرناک جنگ میں جھونک دیا ہے جس کا فرشتوں نے بوقت سجدہ آدم علیہ السلام ذکر کیا تھا ۔
دنیا ایک خونریزحیاتیاتی جنگ میں داخل ہوچکی ہےاورتاریخوں کی معمولی تبدیلیوں کے ساتھ مندرجہ ذیل وائرس انسانوں پر آنے والے دنوں میں حملہ آور ہونگے ۔
سال 2023 تک نمودار ہونے والے وائرس کی فہرست اپنے پاس محفوظ کیجیئے کہ یہی اب اختتام دنیا سے قبل انسانوں کا مقدر ہے۔
جولائی کے مہینے میں Delta وائرس شیڈول کی گئی تھی جو آپ تک پہنچ چکی ہے ۔ ستمبر کے مہینے میں Epsilon کے استقبال کے لیئے تیار رہیئے جبکہ نومبر میں Zeta آپ کی مہمان ہوگی ۔دسمبر میں Eta قدم بوسی فرمائیگی جبکہ 2022 جنوری اور فروری میں Theta کی نوید سنائی گی ہے۔ مارچ اور اپریل میں ہم Lota سے بغل گیر ہونگے ۔ مئی کا مہینہ Lambda کی آمد کا مہینہ ہے جبکہ جون میں MU اور جولائی میں Nu کے درشن ہونگے ۔ اگست کے مہینے میں kis کی بادشاہی ہوگی جبکہ ستمبر میں Omicron اوراکتوبر میں ہم pi سے مدمقابل ہونگے۔
نومبر اور دسمبر میں Rh کا راج ہوگا جبکہ جنوری 2023 میں Sigma اور فروری میں TAu کی آمد ہوگی ۔ مارچ میں ہم Upsilon اور اپریل میں phi کی میزبانی کرینگے جبکہ مئی میں psi اور جون میں Omega اپنا خراج لینے کے لیئے حاضر ہوگی ۔
یہ سب ان وائرس کے نام ہیں جو آپکو فروری 2023 تک سننے کو ملینگے۔ ہر دور آج کے دور سے بدتر ہو گا . یہ بنائے ہوے وائرس پاکستان ، انڈیا بنگلادیش اور عرب ممالک کو زیادہ مثاثر کرینگے ۔ اس سے پہلے تیسری جنگ عظیم کے برپا ہونے کے بھی روشن امکانات ہیں