آتے ہیں جو کام دوسروں کے

تحریر : انجینئر عنصر اعوان ۔۔۔۔۔
اسلام میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اتباع کے ساتھ اللہ کے بندوں کی خدمت اور ان کے ساتھ ہمدردی کرنے کی بڑی تاکید کی گئی ہے۔ایک شخص کا تعلق اللہ سے استوار ہونے کے ساتھ اس کے بندوں سے بھی ہو تب ہی قربِ الہٰی حاصل ہوسکتا ہے ۔
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم ہے: ” نیکی صرف یہ نہیں کہ آپ لوگ اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لیں، بلکہ اصل نیکی تو اس شخص کی ہے جو اﷲ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (آسمانی) کتابوں پر اور پیغمبروںؑ پر ایمان لائے، اور مال سے محبّت کے باوجود اسے قرابت داروں، یتیموں، محتاجوں، مسافروں، سوال کرنے والوں، اور غلاموں کی آزادی پر خرچ کرے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور جب کوئی وعدہ کریں تو اسے پورا کرتے ہیں۔ سختی، مصیبت اور جہاد کے وقت صبر کرتے ہیں۔ یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں۔” (سورۃ البقرۃ)
اسلام میں معاشرتی نظام کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اسی لیے اسلامی تعلیمات میں حقوق اللہ سے زیادہ حقوق العباد پر زور دیا گیا ہے۔ میدان حشر میں حقوق العباد کے متعلق ہی زیادہ پوچھا جائے گا اور اس سلسلے میں معمولی سے معمولی غلطی بھی معافی کے قابل نہیں ہو گی۔ انسان کا اپنے بیگانے، عزیز و اقارب، ماں باپ اور دیگر رشتہ داروں سے نیک سلوک کرنا، تمام انسانوں کے ساتھ ہمدردی سے پیش آنا، جانوروں کو تکلیف نہ پہنچانا وغیرہ حقوق العباد میں شمار ہوتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا:
جو شخص کسی مسلمان کی دنیوی پریشانیوں میں سے کوئی پریشانی دور کرے گا اللہ تعالیٰ اس سے آخرت کی پریشانیاں دور کرے گا اور جو کسی تنگ دست کے ساتھ آسانی کا معاملہ کرے گا اللہ اس کیلئے دنیا وآخرت میں آسانیاں پیدا کرے گا اور جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا تو اللہ دنیا و آخرت میں اسکے گناہوں پر پردہ ڈال دے گا اور اللہ بندے کی اس وقت تک مدد کرتا رہتا ہے جب تک کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگارہتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اس فرمان کے ذریعے پوری امت کو ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی ‘غمخواری اور محبت کا درس دیا ہے اور آپ ؐ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ اپنے اندر دوسروں کی مدد کرنے کا جذبہ پیدا کرے۔ کوئی شخص کسی پریشانی اور تکلیف میں مبتلا ہے تو اسکی تکلیف اور پریشانی دور کرنے کی پوری کوشش کریں۔ جسمانی اور مالی جس قسم کی مدد کی ضرورت ہو اسکی مدد کی جائے.
رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
”جب کوئی مسلما ن کسی مسلمان کی مزاج پرسی کے لئے جا تا ہے تو وہ جنت کے با غ میں ہوتا ہے ۔ ”
اگر کوئی بیمار ہے تو اس کی تیمارداری کریں اور اس کے پاس علاج کے لئے پیسے نہیں تو ایمان اور ہمدردی کا تقاضا ہے کہ آپ اسکے علاج کا انتظام کریں۔ جس طرح نماز پڑھنا عبادت ہے اور اس پر اجرو ثواب حاصل ہوتا ہے ویسے ہی بندوں کی خدمت اور مصیبت زدہ لوگوں کو انکی مصیبتوں سے چھٹکارا دلانا بھی بڑے اجرو ثواب کا باعث ہے. بلکہ بعض اوقات خدمت خلق کا ثواب نفلی عبادتوں سے بڑھ جاتا ہے. ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ مسجد نبوی میں اعتکاف کررہے تھے کہ ایک پریشان حال شخص آپ کے پاس آکر بیٹھ گیا۔ آپ نے اس کی پریشانی کی وجہ معلوم کی۔ تو اس نے کہا مجھ پر فلاں آدمی کا قرض ہے اور میں وہ قرضہ ادا کرنے کے قابل نہیں حضرت ابن عباس ؓ نے کہا تو کیا میں اس قرض خواہ سے بات کروں؟ اس نے عرض کیا ضرور کیجئے. آپ نے جوتیاں پہنیں اور مسجد سے باہر نکل گئے ۔وہ شخص کہنے لگا آپ تو اعتکاف میں ہیں کیا آپ بھول گئے؟ آپ نے فرمایا نہیں، بھولا نہیں البتہ میں نے اس روضۂ پاک والے آقا سے سنا ہے کہ آپ ؐ نے فرمایا جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت کے لئے قدم اٹھائے اور کوشش کرے تو اس کی یہ کوشش 10سال کے اعتکاف سے بہتر اور افضل ہے.
ارشاد نبوی ﷺ ہے :
لوگوں میں سے اللہ کے ہاں سب سے پسندیدہ وہ ہیں جو انسانوں کے لئے زیادہ نفع بخش ہوں۔
اعمال میں سے اللہ کے ہاں سب سے پسندیدہ وہ ہیں جن سے مسلمانوں کو خوشیاں ملیں، یا ان سے تکلیف دور ہو۔یاان سے قرض کی ادائیگی ہو یا ان سے بھوکوں کی بھوک دور ہو ۔
انسانیت کی خد مت کے بہت سے طریقے ہیں۔ بیوائوں اور یتیموں کی مدد ،مسافروں ، محتاجوں، فقرا اور مساکین سے ہمدردی ،بیماروں،معذوروں،قیدیوں اور مصیبت زدگان سے تعاون یہ سب خدمت خلق کے کام ہیں. ہمیں چاہئے کہ ضرورت مند انسانوں سے محبت اور ہمدردی کریں اور ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے میں مدد دیں، مصیبت زدہ لوگوں کی مصیبتوں کو دور کریں، غریبوں اور لاچاروں کی داد رسی کریں تا کہ اللہ کی خوشنودی حاصل ہو. آمین.
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے