ہم کاموں کو کیوں ٹالتے ہیں؟

‏تحریر : محمد حنظلہ شاہد ۔۔۔۔۔
کسی کام کو اس کے بوجھ کی وجہ سے نہیں ٹالا جاتا ۔ نہ اس لیے کہ وہ مشکل ہے ۔ اگرہمارے کام مشکل ہوتے تو کیسے ہم ایک دن اچانک ان کو کر لیتے ہیں؟ کام مشکل ہے نہ وقت طلب ۔ کام دلچسپ ہے ۔ اس میں آپ کا فائدہ بھی ہے ۔ آپ اتنے میچور ہیں کہ اپنا اچھا برا سمجھ سکیں ۔ پھر بھی آپ اسے نہیں کر پا رہے ۔ کیوں؟
کیونکہ آپ کو کسی دوسری چیز کا ’’اسٹریس ‘‘ ہے ۔
کوئی ذہنی دباؤ ہے جو آپ کے دماغ کو جکڑے ہوئے ہے ۔ یہی سستی پیدا کرتا ہے ۔ یہی آپ سے آپ کے کام کو ٹالنے کا کہتا ہے ۔ اسی کے باعث آپ کا دل نہیں چاہتا کہ آپ اپنا کام یا پڑھائی کریں ۔ آپ کو اپنا کام پسند ہے بلکہ اس سے عشق ہے لیکن کسی دوسری چیز نے آپ کو اتنا بوجھل کر رکھا ہے کہ آپ پہ بے زاری چھائی رہتی ہے ۔
اس بے زاری کے حل کے لیے مجھے اور آپ کو واپس اپنے اصل کی طرف لوٹنا ہوگا ۔ وہ اصل جہاں سے ہم سب تخلیق کیے گئے تھے ۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک آزاد انسان بنایا ہے ۔ اللہ کی کتاب نے ہمیں ماضی کے غم اور مستقبل کے خوف سے نکلنا سکھایا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بہت پہلے بتا دیا تھا کہ ہمارے گناہ ہمارے دل کو داغدار کرتے جائیں گے ۔ ہر روز ہم اپنے گناہوں کی گٹھڑی کے ساتھ نماز کے لیے اللہ کے سامنے حاضر ہوں گے ۔ اور اللہ کے آگے جھکنے سے وہ گٹھڑی گر جائے گی ۔آپ کہیں گے کہ وہ گٹھڑی تو گناہوں کی گٹھڑی ہوتی ہے ۔ اور یہاں بات ہو رہی ہے ذہنی دباءو کی اور ذہنی دباءو ایک بالکل مختلف چیز ہے ۔ آپ کی بات بالکل درست ہے ۔ اسٹریس ‘ ٹینشن یا ڈپریشن کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ہم برے ہیں ‘ یا ہم گناہگار ہیں ‘ یا اگر ہم دین پہ چلنے لگیں تو ہم بالکل ٹھیک ہو جائیں گے ۔ ایسا نہیں ہو سکتا ۔ یہ ہمارے دل کے روگ ہیں ۔ وہ علماء جو کہتے ہیں کہ ڈپریشن یا اسٹریس کچھ نہیں ہوتا‘ سب دین سے دوری کا نتیجہ ہے‘ وغیرہ وغیرہ۔۔۔ وہ غلط کہتے ہیں ۔ ایسا نہیں ہوتا ۔ یہ چیزیں دین سے الگ ہیں ۔ یہ ایسے ہی ہیں جیسے بخار ۔ بخار نہ کافر کو دیکھتا ہے نہ مسلمان کو ۔ بس ہو جاتا ہے ۔ تو فرق کیا ہے؟
فرق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکنا آپ کو ان چیزوں سے نکلنے کا راستہ دکھاتا ہے ۔ دعا مانگنے سے دماغ کا بوجھ شاید دور نہ ہو ۔ لیکن دعا مانگنے سے اللہ آپ کو ایسا طریقہ سجھا دیتا ہے جس کے ذریعے آپ اپنے موجودہ مسئلے کا حل تلاش کر سکیں ۔ نماز اور قرآن آپ کے غم ختم نہیں کریں گے لیکن وہ آپ کو ایمان دیں گے ۔