بچپن کی عیدیں ایک خواب بن کر رہ گئے

تحریر: سدرہ آیان ۔۔۔۔۔۔
کہتے ہیں کہ کچھ چیزیں پہلی دفعہ دیکھنے اور کرنے والے مناظر عمر بھر کے لیے ذہن میں نقش ہو کر رہ جاتی ہے ۔ ہم میں سے بہت سے لوگوں کے بچپن کی عیدیں بھی ایسے ہی ذہنوں پر نقش ہوکر رہ گئی ہونگی ۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ جب والد صاحب عید سے ایک دن پہلے ایک بکرا لے آتے تو ہم بہنوں بھائیوں کی ڈیوٹی لگ جاتی ہر بندہ بکرے کی سیوا کرنے میں لگ جاتا ۔ کوئی گھاس ڈالتا تو کوئی پانی، کوئی مہندی اور میرا کام تھا دور سے اسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنا!
تب ہم سب مل کہ بکری کے پاس بیٹھتے اور من گھڑت کہانیاں سناتے ، بڑا بھائی بھی کافی چھوٹا تھا مگر ہم میں سے سب سے بڑا ہونے کی وجہ سے ہر کام میں انکا حکم چلتا اور انکی ہر بات کو اچھی خاصی اہمیت دیتے ۔ وہ جو بھی کہانی سناتا چاہے کہانی جتنی بھی جھوٹی ہوتی ہم آنکھیں بند کرکے یقین کرلیتے۔ انکی کہانیوں میں بکرے کے بارے میں وہ انمول معلومات ہوتی جو شائد آج تک کوئی بھی سائندان اس پہ تحقیق نہ کر سکا ۔ مثال کے طور پر “ابھی یہ بکرا کیا محسوس کررہاہے، کل قربان ہونے کے بعد وہ جنت میں چلا جائگا ، اس وقت بکرا کیا سوچ رہا ہے اب جب بکرا سوئے گا تو خواب میں کیا کیا دیکھے گا’ سب شامل ہوتا ۔
خیر چاند رات کو ایک ہمارے پڑوسی کے بچے اور ہم سب گھر سے باہر نکتے اور ٹائر جلاتے ، گھر کے سامنے والے راستے میں جھاڑو مارتے اور پھر کھیل کود میں مصروف ہوجاتے ۔ تھوڑی دیر بعد گھر سے ماں جی کی آوازیں آنے لگتی پھر ماں جی نہیں انکا چپل بولتا تھا اور تب تک گھر میں ہم آگے ماں جی پیچھے آنکھ مچولی کا کھیل جاری ہوتا جب تک پڑوس کی لڑکیاں مہندی لگوانے نہ آجاتی ۔
سکول کے لیے صبح سویرے اُٹھتے ہوئے جو موت پڑتی وہ قربانی کے دن کبھی نہیں پڑتی ۔ اتنے سویرے اُٹھتے کہ بکری کو بھی وقت سے پہلے قربان ہونے کی فکر شروع ہوجاتی۔عید کے وہ کپڑے جو عید سے ایک ایک ہفتہ پہلے نکال کر رکھے ہوتے ، پہن کر تیار ہوجاتے تو ایسے انتظار میں بیٹھ جاتے جیسے بکرا قربان ہوتے ہی اسکی زندگی ہمیں ملنے والی ہو ۔
والد صاحب آتے اور بکرے کی قربانی شروع ہوجاتی تو چونکہ والد صاحب میڈیکل ڈیپارٹمنٹ سے تھے تو ہمیں تفصیل سے بکرے کی اندرونی ساخت کے حصوں کے نام سمجھاتے لیکن ہمیں نہیں پتہ تھا کہ کل ساتویں آٹھویں میں آئنگے تو یہی چیزیں پھر وہ ہم سے پوچھنگے اور پھر ایسا ہی ہوا کہ قربانی کے دن ہمارا ٹیسٹ بھی ہوتا ۔ ایک دفعہ والد صاحب نے گھمبیر لہجے میں پوچھا، ”دیکھو اور بتاؤ بکرے میں کتنے گردے ہیں ؟”
میں نے کہا ایک ہے ۔ کیونکہ ایک آپ اتار کر ٹرے میں رکھ چکے ہیں تب وہ مسکرائے اور ایک بار پھر سے ہماری وہی بیالوجی والی گفتگو شروع ہوجاتی ۔اتنا کلاس میں نہیں سیکھا جتنا کھڑے کھڑے والد صاحب سے سیکھنے کو مل جاتا ۔
گوشت کے تین حصے کر دیے جاتے اور ہمارے چھوٹے بھائی کی آنکھوں پر پٹی لگا کر پوچھتے یہ حصہ کس کا ۔ اسکے لیے ہم پہلے سے ہی پلاننگ کر چکے ہوتے ۔ بڑی بہن اگر امی کو آواز لگائے تو کہنا یہ ہمارا حصہ ہے کیونکہ ہمارے مطابق ان میں گوشت زرا زیادہ ہوتا لیکن عین موقع پر بڑی بہن اپنا فرض نبھانا بھول جاتی اور یوں جس حصے پر ہماری نظر ہوتی وہ کسی اور کے حصے میں چلا جاتا ۔
خیر جو بھی تھا ہمارا اصل کام تو تب شروع ہوجاتا وہ بھائی جو کسی کی لاکھ کہنے پر بھی دکان سے ماچس تک نہیں لاتا یا ایک چیز لاتا تو دوسرا بھول جاتا عید کے دن وہ بنا پوچھے چلا جاتا اور باربی کیو کے لیے ہر وہ شے لاتا جسکی ہمیں ضرورت پڑتی جبکہ وہ بہن جسے برتن دھونا تک نہیں آتا تھا پھرتی سے آگ لگاتی ، گوشت کاٹتی اور ایسے ایسے طریقوں سے بناتی کہ ہمارا پیٹ بھرتا ہی نہ ہوتا ۔ یہ بہن بھائیوں کی یہ آفر تب تک برقرار ہوتی جب تک گوشت ہوتا ۔ گوشت ختم ہوتے ہی بہن کوکنگ کرنا بھول جاتی اور بھائی ایک چیز لاتا تو چار بھول جاتا ۔ وہ لمحے بہت حسین ہوتے شام کو آگ جلا کر اردگرد بیٹھ کر باربی کیو سے مزے لینا اور کہانیاں سنانا ۔
جیسے جیسے ہم بڑھتے گئے ،زندگی مصروف ہونے لگی اور عیدوں سے رونق غائب ہونے لگی ۔
وہ جو عید سے دو روز قبل بنجارن سے مہندی، چوڑیاں وغیرہ لاتے اور ایک ایک رنگ کی چوڑیاں خریدتے اب ہر کوئی اپنے لیے آنلائن منگوانے لگا۔ وہ جو والد صاحب کے گرد جمع ہوکر قربانی کا نظارہ کرتے وہ سب اب بڑا بھائی سنبھالنے لگا ۔ گھر کے بڑے بیمار پڑ گئے ایک بھائی دوسرے ملک چلا گیا ، تو دوسرا اپنی زندگی میں مصروف ہوگیا ۔ کوئی زندگی کی تلخیاں سہہ کر بے وجہ ہنسنا ،ہنگامہ کرنا سب بھول بھال گئے اور کوئی اپنی زندگی،اپنی سوچ تک محدود ہو کر رہ گیا ۔ وہ جو گھٹنوں ساتھ بیٹھ کر کہانیاں سناتے وہ ایک ہی گھر میں اپنے الگ الگ موبائل فونز کے ساتھ مصروف ہوگئے ۔ اب گھر میں تین بکرے لائے جاتے ہیں ، قربانی ہوجاتی ہے ،گوشت بانٹ دیا جاتا ہے اور بچپن کی وہ سب عیدیں جو سب نے مل کر گزاری تھی سب ایک خواب بن کر رہ گئے ۔