فراڈئیے ایجنٹ موت کے سوداگر بن گئے؟

تحریر: محمدعابد خان اتوزئی ۔۔۔۔۔۔
انسان ایک ایسا جا ندار ہے جو اپنی سا نسوں کو بر قرار رکھنے کے لیے ہر حا لت میں خو را ک کا انتظام کر لیتا ہے، زا ئد خو راک اور حق ملکیت یا ملکیت میں اضا فے کی حر ص ہی اسے کسی غیر قانونی عمل پر اکسا تی ہے،ہر شخص کی خواہش ہو تی ہے کہ وہ اپنا مستقبل اچھے سے اچھا بناسکیں والدین کو بھی اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کی فکر رہتی ہے بچوں کی بہتر نشو و نما، ان کی تعلیم اور اس کے بعد ان کے لیے بہتر رو ز گار کا انتخاب ہر بچے کے والدین کی خواہش ہوتی ہے اکثر والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے یورپین ممالک میں جا کر اعلی تعلیم حاصل کریں اور وہاں روزگار حاصل کر کے اپنا مستقبل اچھے سے اچھا بنا سکیں ہمارے ملک میں غربت اور بے روزگاری میں بے تحاشہ اضافہ ہوا اور ڈگری ہو لڈر غربت کی لیکر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بے روزگاری سے تنگ آکر بیرون ممالک روزگار حاصل کر نے کیلئے یورپ ممالک جانے کیلئے بعض فراڈئیے ایجنٹوں سے مدد حاصل کر تے ہیں جب بھی کوئی شخص ان ایجنٹوں کے پاس جاتا ہے تو وہ اس کو ایسے سنہرے خواب دیکھاتے ہیں کہ اس شخص کی اپنی سوچ ختم ہو جاتی ہے خاص طو ر پرایسے ایجنٹ جو انسانوں کو مختلف زمینی اور سمندری راستوں سے دوسرے ممالک میں لے کر جاتے ہیں کم پیسوں میں یورپ کے ممالک تک رسائی کا خواب دیکھاتے ہیں اس طرح کے ایجنٹو ں کو اگر انسانی سمگلر کہا جائے تو غلط نہ ہوگا بغیر ویزہ کے مختلف ممالک میں سے گزار کر سمندر ی راستے سے یورپ تک پہنچانا وہ اپنے ذمہ لیتے ہیں، سمگلر ز اور ایجنٹ ما فیا ایسے افراد کو یو رپ میں دا خلے کے لیے نئے نئے راستے تلا ش کر کے ان کو بتا تے ہیں۔
ایک پاکستانی فلم”زندہ بھاگ“ دیکھی فلم دیکھ کر ذہن میں ایک بھوت سوار ہوا اور سوشل میڈیا پر ریسرچ شروع کر دی کہ اس موضوع پر کچھ سطور لکھ لوں۔
ہمارے ملک میں انسانی مجبوری کاناجائز فائدہ اٹھانے والے بیوپاری بکثرت نظر آئیں گے۔ جو کام کا جھانسہ دے کر لوگوں کو غیر قانونی دھندے میں ملوث کر دیتے ہیں۔ ان میں بچے اور عورتیں بھی شامل ہیں۔ معصوم لوگوں کو بیرون ملک بھیجنے کا جھانسہ دے کر ان کی جمع پونجی لوٹنے کے ساتھ ان کو جرم و گناہ کی اس دلدل میں پھنسا دیتے ہیں جس سے باہر نکلنا ناممکن حد تک مشکل ہو جاتا ہے۔انسانی سمگلنگ اس وقت بڑا مسئلہ ہے۔ پاکستان میں بھی اکثریت آبادی غربت کی لائن سے نیچے کی زندگی گزار رہی ہے، بے روزگاری، ناانصافی، بنیادی حقوق کا عدم تحفظ، دہشت گردی اور کئی دیگر مسائل سے چھٹکارا پانے کے لیے لوگ بیرون ممالک جانے کے لیے ایسے گروہ کا شکار بن جاتے ہیں جو انسانی سمگلنگ کے دھندے میں فعال ہوتے ہیں۔بیرون ممالک جانے کے لیے شاید 7 فیصد لوگ باقاعدہ اور قانونی طریقہ استعمال کرتے ہیں ورنہ اکثریت بے قاعدہ اور غیر قانونی راستہ اختیار کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ شکار بن کر خود انسانی سمگلروں کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔اب تک ایسی بہت سی داستانیں منظر عام پر آچکی ہیں جن میں معصوم لوگوں کو باہر کا جھانسہ دے کر لوٹا گیا ہو، ان کے ذریعے منشیات کی سمگلنگ کروائی گئی، عورتوں کو جسم فروشی کے دھندے پر لگا دیا گیا۔ دراصل انسانی سمگلر ز کا گروہ اتنا مضبوط اور فعال ہے کہ ان پر ہاتھ ڈالنا اتنا آسان نہیں کیونکہ جس نے ہاتھ ڈالنا ہوتا ہے ان کا ہاتھ ہی تو ان کے سر پر ہوتا ہے۔عرف عام میں ان کو ایجنٹ کہا جاتا ہے جن کے رابطے ایف آئی اے، امیگریشن، پاسپورٹ و شناختی کارڈ کے دفاتر میں کام کرنے والے حکام کے علاوہ سفارت خانوں میں کام کر نے والوں سے بھی ہوتے ہیں، جن کو کام کے مطابق معقول حصہ مل جاتا ہے۔ ایجنٹوں کے ذریعے بیرون ملک جانے والوں میں اکثریت کم پڑھے لکھے یا اَن پڑھ افراد کی ہوتی ہے جو آسانی سے اس جال میں پھنس جاتے ہیں۔ انسانی سمگلروں نے اپنی کشتیاں، بوٹس اور چھوٹے بحری جہاز بنا رکھیں ہیں۔ ان ایجنٹ کا نیٹ ورک کافی ملکوں میں پھیلا ہوتا ہے جو وقت اور حالات کے مطابق انسانی سمگلنگ کے لیے نئے روٹ نکالتے رہتے ہیں۔
غیر قانونی طریقے سے کئی میل راتوں کو پیدل چلنے کے علاوہ کشتیوں، لانچوں سے بیرون ملک داخل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس میں کافی افراد ڈوب کر بھی مر جاتے ہیں کچھ بارڈر سیکورٹی کی گولیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ زندہ بچ جائیں تو غیر قانونی طور پر ملک میں داخل ہونے کے جرم میں حوالات میں بے یارو مددگار بند کر دئیے جاتے ہیں۔ بیرون ممالک میں لاکھوں ایسے افراد بھی مقیم ہیں جن کا اندراج اس ملک میں سرے سے نہیں۔ کام کا جھانسہ دے کر ان کو بیرون ممالک لایا جاتا ہے پھر ان کو غلام بنا کر مقید کر لیا جاتا ہے۔ عورتوں کو جسم فروشی میں لگا دیا جاتا ہے، بچوں سے بھی مشقت لی جاتی ہے۔ لانچوں اور کشتیوں کے ذریعے بارڈر کراس کروانے میں اکثر اوور لوڈنگ کی وجہ سے حادثات پیش آئے ہیں۔ جرائم پیشہ گروہ بغیرکسی قانونی طریقہ کار کے بغیر تارکین وطن سے بھاری معاوضہ لے کر بارڈر کراس کروا رہے ہیں یہ معاملہ یورپ برطانیہ تک ہی محدود نہیں بلکہ اس میں امریکہ، کینیڈا، مشرق وسطیٰ بھی شامل ہیں۔ میکسیکو سے غیر قانونی طریقے سے امریکہ داخل ہونے کی کوشش ہوتی رہتی ہے اس میں اکثر لوگ بے رحم گولی کا نشانہ بھی بنتے ہیں۔دنیا کے بدلتے ہو ئے معا شی اور سیا سی حا لا ت قدیم زمانے سے انسانوں کی ایک جگہ سے دو سری جگہ عارضی یا مستقل نقل مکا نی کی اہم وجہ رہے ہیں۔
پاکستان میں بسنے والے افرا د کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے آئے دن ایسی خبر سننے کو ملتی ہے کہ غیر قانونی طور پر سمندری راستے سے یورپ داخل ہونے والی کشتی کو حادثہ پیش آیا جس میں پاکستانی کی موت واقع ہو گئی پاکستان میں بھی ایسے ایجنٹ موجود ہیں جونوجوان نسل کو غیر قانونی طریقے سے یورپ لے جانے کے خواب دیکھاتے ہیں غیر قانونی طور پر جانے کی کوشش میں کتنے گھروں کے چراغ بھج گئے اگر خود یا والدین اپنی سوچ تبدیل نہیں کریں گے اور حکومت کی طرف سے ٹھوس اقدامات نہ اٹھائے گئے تو خدانخواستہ پتہ نہیں کتنے گھروں کے چراغ اور بجھیں گے اور موت کے سوداگروں اور انسانی سمگلروں کا کاروبار چلتا رہے گا۔ ہمارے ملک پاکستان میں کام کر نے والے غیر سر کاری تنظیموں کو بھی چاہیے کہ وہ ملک کے مختلف علاقوں میں بیرون ملک روزگار کیلئے جا نے والے لوگوں کو مکمل معلومات اور آگاہی فراہم کر انے میں اپنا کردار ادا کریں۔