اسرائیل سے جھگڑا، نظریہ یا مفاد؟

تحریر: محمد خلیل ۔۔۔۔
سوشل میڈیا پہ کچھ تحریریں گردش کر رہی ہیں جن کا عنوان کافی حیران کن ہے کہ “اسرائیل کو تسلیم کرنے سے پاکستان کو فائدے اور نقصان”. دوسرا کہ فلسطین کے علاوہ دوسرے ممالک میں رہنے والے فلسطینی شہری پاکستان کو خاص پسند نہیں کرتے تو ہمیں بھی فلسطینیوں کی فکر میں گھلنے کی بجائے اپنے مفادات دیکھنے چاہیں اور اسرائیل سے تعلقات بڑھانے چاہئیں. فلاں جگہ تو مسجد اقصیٰ نہیں ہے وغیرہ وغیرہ
دوستو پاکستان کی اسرائیل سے نفرت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے اور اگر کوئی بھی شخص براہ راست اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کرے گا تو جوتے کھائے گا، اس لیے سب سے پہلے ذہن سازی انتہائی ضروری ہے اور ذہن سازی کیسے کی جائے بالکل ایسے ہی کہ پاکستانیوں کو اسرائیل سے تعلقات کے فوائد بتائے جائیں تاکہ عوام کے دل میں جو نفرت اور غصہ ہے اسے کم کیا جائے اور اسرائیل کے پاکستانی قوم کے رویے میں نرمی لائی جائے.
دوسری بات کہ فلسطینی پاکستان کو خاص پسند نہیں کرتے تو ہم کیوں نہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کریں یہ ایک نیا شوشہ ہے. چلو بالفرض مان لیتے ہیں کہ فلسطینی پاکستان کو پسند نہیں کرتے تو پسند تو ہمیں افغانستان بھی نہیں کرتا بلکہ پاکستان میں دہشتگردی اور لوٹ مار میں تقریباً ہاتھ بھی افغانیوں کا ہے تو کیا ہم افغانستان کو اسی حالت میں چھوڑ دیں. نہیں ایسا نہیں ہے ہم افغانستان کے لیے لڑے بھی ہیں اور انکے تمام بدترین عزائم بھی برداشت کیے ہیں، فلسطینیوں نے تو ہمیں کچھ کہا ہی نہیں.
ویسے اگر دیکھا جائے تو اسرائیل سے ہمارے تعلقات کی وجہ فلسطینیوں سے کہیں بڑھ کر وہ نظریہ ہے جس کی بنیاد آج سے 1400 سال قبل رکھی جاچکی ہے اور یہ نظریہ ہی ایک مسلمان کے لیے سب کچھ ہے، کیا ایک مسلمان اس بات کو گوارہ کر سکتا ہے کہ رب تعالیٰ اور دینِ اسلام کے بدترین دشمن یہودیوں کے ہاتھوں قبلہِ اول مسجد اقصیٰ کا سودا کر لیں تاکہ مسجدِ اقصیٰ کو شہید کر دیا جائے؟ کیا ایک مسلمان کل کو دجال کی خدائی تسلیم کرے گا؟ کیا ایک مسلمان نیو ورلڈ آرڈر کے قیام کی صورت میں یہودیت کے سامنے سررنڈ کرتے ہوئے اسرائیل کی غلامی میں جائے گا؟ جبکہ اللہ نے یہودیوں کو اسلام کا بدترین دشمن بتایا ہے تو بات فلسطینیوں کی نہیں بات نظریے کی ہے.
سوشل میڈیا پہ ایسے ہزاروں اکاؤنٹس اب ایکٹیو ہوچکے ہیں جو آپکو اسرائیل کے فائدے بتائیں گے، جو آپکو فلسطینیوں کے پاکستان کے بارے غلط خیالات کے جھوٹے قصے سنائیں گے، جو آپکو جھوٹی تصویریں دکھائیں گے کہ مسجد اقصیٰ فلاں نہیں فلاں ہے یہ سنہری گبند مسجدِ اقصی نہیں ہے اس سے چند فٹ فاصلے پہ ہے وغیرہ وغیرہ. ان تمام باتوں سے محتاط رہیں.
ایک جملہ یاد رکھیے گا کہ کبھی کبھی تسلیم کے بعد تحقیق گمراہ کر دیتی ہے. اسرائیل سے ہمارا جھگڑا دنیاوی نہیں دینوی ہے اور جب اللہ تعالیٰ اور ہمارے پیارے نبی پاک ہمیں آگاہ کرچکے ہیں کہ یہ ہمارے یہودی تمھارے دوست نہیں ہوسکتے اور ہماری آخری جنگیں ان سے ہی ہونی ہیں تو میرا نہیں خیال کے اس کے بعد بھی کوئی مسلمان اسرائیل سے تعلقات میں فائدے اور نقصان کا پہلو سامنے رکھے کر بات کرے گا کیونکہ اسرائیل سے تعلقات صرف گھاٹا ہی گھاٹا ہے. ایسی فضولیات کو پڑھنے، بحث کرنے اور شئیر کرنے گریز کریں.