اگر دہشتگردی کے پیچھے وردی ہوتی تو کورکمانڈر اپنے بیٹے کو مرنے نہ دیتے

تحریر:گوہررحمان ۔۔۔۔
سال2007 سے 15 20 تک فاٹا اور خیبر پختونخواہ میں سکیورٹی صورتحال انتہائی خراب تھی جس کو سمجھنا اب مشکل اس لئے ہے کہ سکیورٹی صورتحال اس وقت کافی بہتر ہے اور ملکی حالات کافی سازگار ہے۔ خیبر پختونخوا میں سیکیورٹی کی صورتحال کو سمجھنا مشکل ہے ۔ 25 سال سے کم عمر ی میں سینکڑوں جوانوں نے خوشی خوشی ملک کے مستقبل کے لئے موت قبول کرلی ہمارے شہریوں کی قربانیوں کے ساتھ ساتھ وردی میں سینئر جوانوں کو بھی نقصان پہنچا۔ پاک فوج شاید واحد فوجی فوج ہے جہاں ہمارے شہدا میں سینئر افسران بھی شامل ہیں جرنیلوں سے لے کر ایک سپاہی تک شامل ہے ۔کسی کمانڈر کے لئے ایک فوجی کو کھونا انتہائی تکلیف دے اور دھچکا ہوتا ہے لیکن جنگ میں کودنا اور اس میں اپنی جانیں نچھاور کرنے کے پیچھے ایک مقصد کارفرماں ہوتا ہے۔ اور وہ مادر وطن کے تحفظ اور سلامتی ہے۔پشتون تحفظ موومنٹ کے آنے کے بعد سے پاکستان میں ایک نعرہ فیشن سا بنتا جارہا ہے کہ یہ جو دہشتگردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے۔ لیکن یہ لوگ بیرونی فنڈنگ کی بدولت یہ سب بولتے کل کو اگر ان جیسے لوگوں پر یہ فنڈنگ بند کردی جائے تو یہ سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ اس کی سب سے بڑی مثال پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما محسن داوڑ کو ہی دیکھ لیجئے جو چند افغانستان اور ہندوستان کی گود میں جانے سے پہلے آپریشن ضرب عضب اور ڈرون کی حمایت کرتے نہیں تھکتے تھے لیکن ان دو ممالک کی فنڈنگ کے بعد سے اب یہی شخص پاکستان کی مسلح افواج کو بدنام کرتا رہتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں دہشتگردی کے خلاف جنگ میں صرف عام عوام کے بچے مارے جاتے ہیں جب کہ جرنیلوں کے بچے اس سے محفوظ ہے تو ان لوگوں نے اپنی آنکھوں پر جو ڈالرز کی پیٹی لگا رکھی ہے انھیں کورکمانڈر پشاور لیفٹینٹ جنرل (ر)مسعود اسلم کو نہیں بھولنا چاہیئے۔لیفٹینٹ جنرل مسعود اسلم 2009 میں کور کمانڈر پشاور تھے اور ان ہی کی سربراہی میں اس وقت خیبر پختونخوا اور اس وقت کے وفاق کے زیر انتظام فاٹا میں دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کررہے تھے ان کے بیٹے پارک لین کی ایک مسجد میں ہوئے خودکش دھماکے میں شہید ہوگئے تھے۔ اگر واقع اس طرح کے واقعات کے پیچھے یہ دہشگردی کے پیچھے وردی ہوتی تو کیا لیفٹنٹ جنرل اور کور کمانڈر ہونے کے باوجود وہ اپنی اولاد کو اس طرح مرنے دیتے۔ مسعود اسلم اپنی وردی اتار دیتے اگر اس طرح کے واقعات کے پیچھے وردی ہوتی مگر اپنے بیٹے کو مرنے نہ دیتے۔دسمبر کا مہینہ تو ویسے بھی پاکستان پر کافی بھاری ہوتا ہے۔کیونکہ اس مہینے میں اور یہ مہینہ ہمیں ہمارے بے گناہ نوجوانوں کی بہت سی قربانیوں کا درد اور یاد دلادیا ہے جو دہشت گردوں کے نام سے جانے جانے والے ان درندوں کا ناپسندیدہ شکار بن گئے ہیں۔ 4 دسمبر 2009 کی پریڈ لین مسجد کے واقعہ میں قریب 40 فوجی اہلکار اور ان کے ان کے بچے اس واقعے میں شہید ہوئے جو نماز جمعہ پڑھنے مسجد گئے تھے۔ ان میں 7 سے 21 سال کی عمر کے 17 بچے شامل تھے ، جنہوں نے نہ صرف اپنے والدین کی امیدوں اور امنگوں کو بلکہ ملت کی امید کو بھی اپنے ساتھ لیا۔ اس میں کرنل قیصر یا ولید کے اکلوتے بیٹے ، بھی شامل تھے بریگیڈیر ممتاز، کرنل شکران ، بریگیڈ صادق ، کرنل درانی اور بہت سے دوسرے لوگوں کے بچے اس وقت موجود تھے ۔ ان نوجوانوں میں سے پانچ حافظ قرآن تھے۔ ان شہدا کی ماؤں اور بہنوں کے خاموش سوالات جس کے جواب اب تک نہ مل سکے اس موقع پر میجر صہیب کا ذکر کرنا انتہائی ضروری ہے جن کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی جو معزور تھے وہ بھی اس دھماکے میں شہید ہوئے تھے