صنفی امتیاز کا خاتمہ

تحریر:عبداللہ شاہ بغدادی ۔۔۔۔ دنیا کی تخلیق کے طریقہ کار پر دنیا بھر میں اختلافات پایا جاتا ہے۔دنیا کے ہر کونے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا اپنا ایک نظریہ ہے،دنیا کی تخلیق کیسی ہو ئی؟
ہر کوئی اس ضمن میں اپنی رائے کو دلا ئل کے ساتھ پیش کرکے خود کو درست ثابت کر نے کیلئے کو شاں ہے۔اس ضمن میں بے شمار کتابیں بھی موجود ہیں۔اس پر سائنس اور مذہب بھی کئی جگہوں پر آمنے سا منے آچکے ہیں۔یہی صورتحال کچھ معاشروں کے وجود کا بھی ہے۔معاشرے کا وجود مختلف،معاشرے کے اقدار مختلف،معاشرے کے اصول مختلف،رسم ورواج مختلف حتیٰ کہ مقاصد بھی مختلف لیکن ایک چیز ایسی بھی ہے کہ جس کے بارے میں دنیا کا ہر انسان متفق بھی ہے اور درست بھی ہے وہ یہ کہ زمین کی پیدا ئش انسان کیلئے ہو ئی ہے دنیا میں کہی بھی کسی سے بھی اگر پو چھا جا ئے کہ کیا دنیا انسان کے رہنے کیلئے بنا ئی گئی ہے اس کا جواب مثبت ہو گا۔اور یہ حقیقت بھی ہے،دوسری بات جس میں لوگ بظاہر اختلافات نہیں رکھتے وہ انسان کی برابری ہے،اگر سوال کیا جائے کہ آیا دنیا کے تمام انسان حقوق کے لحاظ سے برابر ہیں؟ توفخریہ انداز میں جواب ہاں! میں ملے گا۔یہی وہ نقاط ہیں جہاں سے انسان کے نظریات اور منافقت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔دنیا اور زمین کی پیدائش کے اختلافات کے پیچھے ہر ایک کا اپنا ایک نظریہ کا ر فرما ہو تا ہے جو درست بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی لیکن جس چیز کے بارے میں بظاہر سب کے سب انسان متفق ہے یعنی زمین انسان رہنے کی جگہ اورسب انسان برابر ہیں کے پیچھے دنیا کی کثیرتعداد کی چھپی ہو ئی منافقت موجود ہے، یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ہر تیسرے اور چوتھے ملک میں ایک فساد بر پا ہے،اس کے علاوہ ہر ملک میں انسانوں کے مابین حقوق کے غیر مساوی تقسیم نے کہرام بر پا کیا ہے۔ایک انسان دوسرے انسان کو خود سے بہتر تصور کرتا ہے اور اس کی نسبت اپنے آپ کو زیادہ مراعات کا حقدار سمجھتا ہے،اس نقطہ سے لوگوں کے حقوق کی حق تلفی کا باقاعدہ آغاز ہو تا ہے۔دنیا کے کسی بھی کونے میں بھی کسی بھی انسان کے مابین اختلافات اور جھگڑے کی بنیادی وجہ حق تلفی ہی ہو تی ہے۔اس کے برعکس کسی بھی خوشحال ملک یا معاشرہ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو تا ہے کہ خوشحالی کہ اصل وجہ لوگوں کے مابین حقوق کی مساوی تقسیم ہے،اس معاشرے میں ان گنت مسائل اور بے چینی پائی جاتی ہے جہاں پر مساوات کی قبریں موجود ہو تی ہیں اگر ان حق تلفیوں کی حوصلہ شکنی نہ کی جائے تو وقت کے ساتھ ساتھ یہ رویہ کا شکل اختیار کر لیتا ہے،یہاں سے یہ مسئلہ انفرادیت سے اجتما عت کے مدار میں داخل ہو جاتا ہے اور جب اجتماعیت کے ہاتھ میں ایک خاص رویہ پنپنا ہے تو وہ روایت بن جایا کرتی ہے۔کسی بھی معاشرے کے تجزئیے سے یہ بات بخوبی جانی جاسکتی ہے کہ ہر اک روایت کے پیچھے ایک خاص رویہ مضمر ہے۔روایات میں اپنی رویوں کا اظہار ہو تا رہتا ہے،روئیے اور روایت کی بنیاد کسی قوم یا معاشرے کے حامل کردہ علوم پر ہوتا ہے جو وہ حقوق کی تقسیم کے بارے میں رکھتے ہیں۔اگر حاصل کردہ علم زندگی گزارنے کے لئے ناکافی اور ناقص ہے تو منفی رویہ بنے گا،منفی روایات بنے گئے اور منفی معاشرے کی بنیاد پڑے گی اور اگر حاصل کردہ علم مثبت ہے اور ایک بہتر زندگی گزارنے کے لئے کافی ہے تو مساوی حقوق،مثبت رویہ،مثبت روایات اور مثبت معاشرہ بنے گا۔اس علم کی بنیاد پر معاشرے میں ہر چیز کے بارے میں ایک خاص رویہ موجود ہے،اب اگر معاشرے میں موجود رویے سے مسا ئل پیدا ہورہے ہیں تو ہمیں علم کے وہ سر چشمے بدلنے ہو ں گے جن کی بنیاد پر رویہ یا روایت بنتی ہے۔اب اگر اپنے معاشرے کا جائزہ لیا جائے تو بہت سے تکلیف دہ منفی رو ئیے سامنے آئے ہیں۔ان میں سے ایک منفی رویہ معاشرے میں موجود صنفی امتیاز ہے جس نے باقاعدہ تشدد کی شکل اختیار کر رکھی ہے جس کا ثبوت چند دن قبل روالپنڈی کے علاقہ ثاقب آباد میں ہونے والا واقعہ ہے۔قارئین بخوبی جانتے ہیں کہ ارسلان نامی جوان نے اپنی ماں پر تشدد کی۔ہمارے معاشرے میں خواتین کے بارے میں موجود منفی رویے نے ہمیں دنیا میں چھٹے نمبر پر لا کھڑا کر دیا۔صنفی امتیازی کی بدولت ہم دنیا جانے جاتے ہیں ”بدنام جو ہو گے تو کیا نام نہ ہو گا“ صنفی امتیاز کو ختم کرانے اور خواتین کے بارے میں قائم منفی رویوں اور روایات کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے ہمیں آنے والی نسلوں کو مثبت علم دینا ہو گی ورنہ جو حالت گلناز بی بی کی ہے وہ ہر گھر میں موجود ہر عورت کی ہو گی۔