امریکہ اور اس میں سیا ہ فام کا گھٹتا دم

تحریر:گوہر رحمان ۔۔۔۔
حال ہی میں امریکا میں ایک ایسا واقع پیش آیا جس نے دنیا کو ایک نام نہاد تہذیب یافتہ ریاست کا اصل چہرہ دکھا دیا اور وہ واقع ایسا ہے کہ ایک سیا ہ فام امریکی کو ایک سفید فام پولیس نے گرفتار کیا اور اس پولیس آفسر نے کئی منٹ تک اس کی گردن پر اپنا گھٹنا رکھا رہا، جب کہ پولیس آفیسر کے گھٹنے تلے دبا جارج فلائیڈ گھٹی گھٹی آواز میں بار بار رحم کی اپیل کرتا رہا وہ کہتا رہا “میرا دم گُھٹ رہا ہے” “میں مر رہا ہوں” لیکن سفید رنگت کے زُعم میں مبتلا آفیسر کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی حالانکہ جارج فلائیڈ مسلح بھی نہیں تھا اسکے ہاتھ بھی ہتھکڑیوں میں جکڑے گئے تھے الزام بھی جعلی دستاویزات کا تھا اس قتل کی تحقیقات ابھی جاری ہیں لیکن کہا جا رہا ہے کہ پولیس آفیسر نے اسکی گردن پہ اپنا گھٹنا آٹھ منٹ سے زیادہ دیر تک دبائے رکھا حالانکہ فلائیڈ کی جان پانچویں منٹ میں ہی نکل چکی تھی یوں ایک پولیس آفیسر جو کسی بھی ریاست کے امن و امان کا ضامن کہلاتا ہے وہ اپنے ہی ملک کے ایک شہری کی لاش کو تین منٹ تک روندتا رہا۔ اس واقع کے فوری بعد پورے امریکا میں پر تشدد مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اور کئی پولیس کی گاڑیوں اور املاک کو بھی نقصان پہنچایا۔ لیکن امریکی صدرکی ٹویٹ میں سیاح فام کو انصاف دینے کے بجائے انھوں نے اپنی ٹویٹ میں مظاہرین کو دھمکیاں دینا شروع کردی۔ امریکی صدر نے اپنے زہر آلود ٹوئیٹس کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے دھمکی آمیز زبان استعمال کی اور کہا کہ کہ مظاہرین یاد رکھیں کہ جب لوٹ مار کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو گولی بھی چلتی ہے۔ اس طرح کے ایک اور ٹوئیٹ میں کہا کہ اگر مظاہرین نے وائٹ ہاوس میں داخل ہونے کی کوشش کی تو انہیں خونخوار کتوں اور سکیورٹی گارڈز کا سامنا کرنا پڑے گا ایسے ٹوئیٹس کے بعد مظاہرین نے وائٹ ہاوس پر دھاوا بولا اور ٹرمپ کو بنکر میں چھپنا پڑا ۔لیکن مغرب کی تاریخ اس طرح کے واقعات سے بھری پڑی ہے ، اگر مغرب کی تاریخ دیکھیں تو یہ کوئی پہلا واقع نہی ہے جس میں سفید چمڑی کے غرور میں مبتلا امریکیوں نے سیاح فا ہ کوغلام بنایا ، ان کا قتل یہ ان پر تشدد کیا ہے، بلکہ مغرب کی تاریخ ان ظلم و ستم کے واقعات سے بھری ہوئی ہے۔ اگر امریکا میں سیا ہ فام پر ظلم اور تشدد کی تاریخ پر نظر دوڑایئں تو سلسلہ 17 ویں اور 18 ویں صدی سے شروع ہوتا ہے جب گوری چمڑی والوں نے لوگوں کو براعظم افریقہ سے اغوا کیا اور امریکی کالونیوں میں غلامی پر مجبور کیا اور تمباکو اور روئی جیسی فصلوں کی پیداوار میں غلام اورمزدور کے طور پر کام کروایا اور ان کا استحصال کیا ۔ انیسویں صدی کے وسط تک ، امریکہ کی مغرب کی طرف توسیع کی تحریک نے غلامی کے بارے میں ایک زبردست بحث کو جنم دیا کہ اس خونی خانہ جنگی کے دوران قوم کو بہت نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اگرچہ یونین کی فتح نے قوم کے چار لاکھ غلام لوگوں کو آزاد کیا ، لیکن غلامی کی وراثت امریکی تاریخ پر اثرانداز ہوتی رہی ، تعمیر نو کے دور سے لے کر شہری حقوق کی تحریک تک جو آزادی کے ایک صدی بعد ابھر کر سامنے آئی۔امریکہ میں غلامی کا آغاز 1619 میں ہوا ، جب پرائیویٹر وائٹ شیر 20 افریقی غلاموں کو ساحل کے کنارے جیم سٹون ، ورجینیا کی برطانوی کالونی میں لایا۔ جہاز کے عملے نے افریقیوں کو پرتگیز غلام جہاز ساؤ جاو بٹیستا سے پکڑا تھا۔17 ویں صدی کے دوران ، شمالی امریکہ میں یورپی آباد کاروں نے افریقی غلاموں کی طرف رغبت اختیار کرلی کیونکہ یہ ایک سستا اور بہتر وسیلہ تھا مزدوری کے لئے، اور وہ زیادہ تر غریب یورپی تھے۔اگرچہ درست اعدادوشمار بتانا ناممکن ہے ، لیکن کچھ مورخین نے اندازہ لگایا ہے کہ صرف 18 ویں صدی کے دوران ہی 6 سے 7 ملین غلام لوگوں کو نئی دنیا میں درآمد کیا گیا تھا ، جس سے افریقی براعظم کو اپنے کچھ صحت مند اور قابل مرد اور خواتین سے محروم رکھا گیا تھا۔امریکی صدر کے پہلے 12 میں سے آٹھ صدر ایسے تھے جو خود غلاموں کے مالک تھے تھے۔ غلامی کے حامیوں نے امریکی کالونیائزیشن سوسائٹی جیسے گروہوں کی کاوشوں کی حمایت کی ، جنھوں نے 19 ویں صدی میں غلاموں کی آزاد نسل ہزاروں کی تعداد میں آزاد سیاہ فام لوگوں – جن میں سے بیشتر امریکا میں پیدا ہوئے تھے لایبیریا بھیجے تھا۔لیکن انقلابی جنگ کے بعد نئے امریکی آئین نے غلامی کے ادارے کو پوری طرح سے تسلیم کیا ، اور ہر ایک غلام فرد کو کانگریس میں ٹیکس اور نمائندگی کے مقاصد کے لئے کسی فرد کے تین تہائی حصے میں شمار کیا اور کسی بھی “خدمت پر فائز شخص” کی بحالی کے حق کی ضمانت دی۔1982 میں کانگریس نے مفرور غلام قوانین کو ختم کردیا ، امریکی علاقوں میں غلامی پر پابندی لگا دی ، اور لنکن کو فوج میں آزاد غلاموں کو ملازمت دینے کا اختیار دیا تھا۔ اس دن – یکم جنوری ، 1863 ء – صدر لنکن نے باضابطہ طور پر آزادی کا اعلان جاری کیا ، اور یونین کی فوج سے مطالبہ کیا کہ وہ فوجی استحکام کے تحت ، آئین کے ذریعہ منظور شدہ ، انصاف کے عمل کے طور پر ، بغاوت میں مبتلا ریاستوں میں تمام غلاموں کو آزاد کریں۔ ان تیس لاکھ غلاموں کو ہمیشہ کے لئے آزاد قرار دیا گیا تھا۔ اس وقت امریکہ میں جو کچھ ہو رہا ہے کسی بھی معاشرے میں جب ایسا ہونے لگے جہاں عوام الناس اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کرنے لگیں جہاں نسل پرستی کو ہوا ملنے لگے تو وہاں بدامنی اور خانہ جنگی کی راہ ہموار ہوجاتی ہے اور امریکہ اس وقت درست سمت میں بڑھ رہا ہے دنیا بھر کے لاکھوں بلکہ کروڑوں انسانوں کے قاتل اس وقت اپنے آپ کو بچانے میں لگے ہیں ان کی معیشت جو پہلے ہی کورونا کی وجہ سے ڈوب رہی ہے ایک لاکھ سے زائد امریکی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ایسی خطر ناک صورتحا ل میں ریاست کے ذمے دار سکیورٹی اہل کاروں کا اپنی عوام کے ساتھ ایسا وحشتناک رویہ امریکہ کو تیزی سے تباہی کی طرف لے کر جا رہا ہے مغربی تہذیب کا جنازہ نکل رہا ہے دنیا بھر میں انسانی حقوق اور نام نہاد روشن فکری کے دعویدار مغرب اور خصوصا امریکہ کا اصلی اور منحوس چہرہ دنیا کے سامنے واضح ہو چکا ہے۔