وفاقی محتسب کی سال2019 کی کارکردگی

تحریر:ڈاکٹر انعام الحق جاوید ایڈوائزر وفاقی محتسب
انصاف کی بلا تاخیر پر ہمیں ہر معاشرے کی بنیادی ضرورت ہوتی ہے،جن معاشروں اور مملکتوں میں انساف میں تاخیر ہو تی ہے وہ بالا آخر انتشار کا شکار ہو جاتے ہیں شاید اسی لیے کہا جاتا ہے انصاف میں تاخیر بھی نا انصافی ہےپاکستان میں وفاقی محتسب ایک ایسا ادارہ ہے جہاں عام پاکستانیوں کو فوری اور مفت انصاف فراہم کیا جاتا ہے،شکایت گزار کا ایک پیسہ بھی خرچ نہیں ہوتا اور اسے گھر بیٹھے انصاف مل جاتا ہے وفاقی محتسب کا قیام کا بنیادی مقصد وفاقی حکومت کے اداروں کے خلاف بدانتظامی کی شکایات کا ازالہ کرنا اور عام شہریوں کو مفت انصاف فراہم کرنا ہے اسے آپ غریبوں کی عدالت بھی کہہ سکتے ہیں معاشرے کے وہ افراد جن کی کہیں شنوائی نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ عدالتوں اور وکلا کے بھاری اخراجات برداشت کر سکتے ہیں ایسے لوگ سادہ کاغذ پر ایک درخواست لکھ کر وفاقی محتسب کو بھجوا د یں تو اس پر کارروائی شروع ہوجاتی ہے اس ادارے کی بہترین کارکردگی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ وفاقی محتسب سید طاہر شہباز نے 2019 میں 74869 شکایات کے فیصلے کئے وفاقی محتسب سیکرٹریٹ کی تاریخ میں اب تک کسی ایک سال میں یہ سب سے زیادہ فیصلے ہیں ،تمام شکا یات کے فیصلے ساٹھ دن کے اندر کئے گئے، چونکہ وفاقی محتسب میں افہام و تفہیم سے معاملات کو سلجھانے کی کوشش کی جاتی ہے97 فیصد فیصلوں پر عملدرآمد بھی ہوگیا ہے ۔

گزشتہ برس وفاقی محتسب سیکرٹریٹ میں سکائپ ،آئی ایم او اور انسٹاگرام پر شکا یات کی سماعت شروع کی گئی ،اب شکایت کنندگان گھر بیٹھے سماعت میں شامل ہوسکتے ہیں انہیں سفر کی صعوبت اٹھانے کی بھی ضرورت نہیں۔ اس سال کے وسط تک تمام علاقائی دفاتر میں بھی آن لائن سماعت شروع ہو جائے گی، شکایت گزار اور ایجنسی کو اختیار ہوگا کہ وہ اپنے گھر یا دفتر میں بیٹھ کر سماعت میں شریک ہو اور اپنا موقف پیش کر سکے، اس سے شکایت کنندہ کے وقت اور ایجنسی کے سرمائے کی بچت ہوگی، وفاقی محتسب کو 2019 کے دوران73 ہزار 59 اعتراض اور شکایات موصول ہوئیں، سب سے زیادہ شکایات بجلی سپلائی کرنے والے کمپنیوں کے خلاف کی گئیں جن کی تعداد 32 ہزار 421ہے، 2019 میں ان کمپنیوں کے خلاف 32 ہزار277 شکا یات کے فیصلے کیے گئے، سوئی گیس کے خلاف 9598 شکایات موصول ہوئیں،ان کے علاوہ دس ادارے جن کے خلاف سب سے زیادہ شکایات موصول ہوئے ان میں نادرا، پاکستان پوسٹ آفس، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی پاکستان بیت المال، پاکستان ریلوے، اسٹیٹ لائف انشورنس، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور ای او بی آئی شامل ہیں۔ سال 2019 کے دوران 23 ہزار281 شکایت پر وفاقی محتسب نے وفاقی اداروں کو ہدا یات اور سفارشات جاری کیں،جن میں سے20 ہزار658 پر عملدرآمد ہو چکا ہے یہ وفاقی محتسب سید طاہر شہباز کی حسن کارکردگی کا ثبوت ہے۔ محتسب اور احتساب کا تصور سب سے پہلے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں شروع ہوا،

انھوں نے سرکاری عمال کے خلاف براہ راست شکا یات کے لئے سب سے پہلے محتسب مقرر کیا۔دور جدید میں سب سے پہلے سویڈن میں محتسب کا ادارہ قائم کیا گیا۔اب دنیا کے اکثر ممالک میں سینکڑوں کی تعداد میں محتسب کے ادارے کام کر رہے ہیں۔ پاکستان میں سب سے پہلے 1983 میں وفاقی محتسب کا ادارہ قائم کیا گیا۔ اب ٹیکس محتسب،بنکنگ محتسب ، انشورنس محتسب خواتین کے ہراساں کرنے کے خلاف محتسب نیز چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر میں محتسب کے ادارے کام کر رہے ہیں۔ ایشیائی ممالک میں ایشین امبڈ سمین ایسوسی ایشن( اے او اے )کے نام سے ایک تنظیم بھی کام کر رہی ہے جس کے ارکان کی تعداد 44 ہے 1996(اے او اے) کے قیام میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا تھا، تب سے 2010 تک اے او اے کے صدر کا منصب بھی پاکستان کے پاس رہا۔ اب بھی پاکستان کے محتسب سید طاہر شہباز اے او اے کے صدر بھی ہیں۔ گزشتہ نومبر میں استنبول ترکی میں اے او اے کے ایک اجلاس میں انہیں دوسری بار اے او اے کا صدر منتخب کیا گیا ۔اس تنظیم کا صدر دفتر بھی وفاقی محتسب سیکرٹریٹ اسلام آباد میں ہے۔ وفاقی محتسب سیکرٹریٹ میں روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں شکا یات موصول ہوتی ہے اور اسی روز بغیر کسی تاخیر کے ان پر کاروائی شروع ہوجاتی ہے اور اگلے روز شکایت گزار کو ایس ایم ایس کے ذر یعے اس کی شکایا ت کا نمبر اور تاریخ سماعت کی اطلاع کردی جاتی ہے اور ساٹھ دن کے اندر ہر شکایت کا فیصلہ کردیا جاتا ہے

۔پاکستان کی کسی عدالت میں اتنی جلدی فیصلہ نہیں ہوتا۔ یہ اعزاز صرف محتسب کے ادارے کو حاصل ہے کہ وہ پاکستان کے غریب شہریوں کو ان کی دہلیز پر فوری اور مفت انصاف فراہم کر رہا ہے۔ وفاقی محتسب کے فیصلوں پر کوئی بھی فریق نظر ثانی کی اپیل کر سکتا ہے جن کا فیصلہ 45 دن میں کر دیا جاتا ہے۔ فیصلوں کے خلاف اپیل صرف صدر پاکستان کو کی جاسکتی ہے، صدر پاکستان بھی عموما محتسب کے فیصلوں کو بحال رکھتے ہیں۔ آپ یہ جان کر حیران ہونگے کہ پچھلے برس 2019 میں وفاقی محتسب74 ہزار869 فیصلوں میں صرف 317 فیصلوں کے خلاف صدر پاکستان کو اپیل کی گئی جن میں سے صدر پاکستان نے صرف23 اپیلیں قبول کیے جو شکایت کنندگان کی تھی، ایجنسی کی طرف سے وفاقی محتسب کے خلاف صدر پاکستان نے کوئی ایک اپیل بھی قبول نہیں کی گئی۔وفاقی محتسب عوام الناس کو ان کے گھر کی دہلیز پر انصاف فراہم کرنے کے لیے بھی سرگرم ہے۔ اس مقصد کے لیے او سی آر کے نام سے ایک پائلٹ پراجیکٹ شروع کیا گیا ہے جس کے تحت وفاقی مختسب کے افسران تحصیل ہیڈکوارٹرز میں جا کر عام شہریوں کو ان کے گھر کی دہلیز پر انصاف فراہم کرتے ہیں۔ ایسی شکایت کا فیصلہ 45 دن میں کیا جاتا ہے ۔ایک ایسا انقلابی قدم ہے جسے پوری دنیا میں سراہا گیا۔ او سی آر نظام کے تحت 2019 کے دوران وفاقی محتسب کے افسران نے تحصیل اور ضلعی ہیڈکوارٹرز پر خود جاکر سماعت کی اور 5374 شکایات کا ازالہ کیا۔

اس کے ساتھ ساتھ وفاقی محتسب نے شکا یات کی فوری ازالہ کیلئے تمام وفاقی اداروں کو ہدایت کر رکھی ہیں کہ وہ ادارہ جاتی سطح پر شکایات کو حل کرنے کا نظام وضع کر یں چنانچہ بیشتر وفاقی اداروں نے اپنے ہاں شکایات سیل قائم کر رکھے ہیں جہاں کوئی بھی شخص شکایت کر سکتا ہے۔ اگر ادارہ کے سطح پر شکا یات30 دن میں حل نہ ہو تو وہ ایک خود کار نظام کے تحت وفاقی محتسب کی کمپیوٹرائزڈ سسٹم پر آ جاتی ہیں اور وفاقی محتسب میں ان پر کاروائی شروع ہوجاتی ہے اس مقصد کے لیے وفاقی حکومت کے اکثر اداروں کو وفاقی محتسب کے کمپیوٹرائزڈ نظام سے منسلک کیا گیا ہے۔وفاقی مختسب نے اپنے آپ کو صرف شکا یات کے فیصلوں تک محدود نہیں رکھا بلکہ مختلف اداروں کے نظام کی اصلاح کے لئے متعلقہ شعبوں کے نامور شخصیات کی سربراہی میں مختلف کمیٹیاں تشکیل د یں،جن کی سفارشات کو سپریم کورٹ تک نے نہ صرف سراہا بلکہ سپریم کورٹ نے وفاقی محتسب سے کہا کہ وہ پاکستان میں تھانوں اور جیلوں کی اصلاح کے بارے میں صوبوں کے ساتھ مشاورت کے بعد تجاویزد یں کہ جیلوں کی اصلاح کیسے ممکن ہے اور تھا نوں کو کیسے عوام دوست بنایا جا سکتا ہے۔سپریم کورٹ کی اس ہدایت پر وفاقی محتسب نے انتہائی تجربہ کار عوامی نمائندوں سول سوسائٹی کے سرکردہ افراد اور جیلوں سے متعلق اعلی سرکاری افسران پر مشتمل مختلف کمیٹیاں بنا ئیں جن کی جانب سے تیار کردہ طویل ریسرچ پر مشتمل رپور ٹیں سپریم کورٹ آف پاکستان اور متعلقہ سرکاری اداروں کو ارسال کی گئیں۔ ان کمیٹیوں نے ملک بھر کے جیلوں کے دورے کرکے وہاں قیدیوں کی حالت زار کا مشاہدہ کیا اور پھر جیلوں کے نظام کی اصلاح کے لیے سفارشات مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ کچھ عملی اقدامات بھی اٹھائے ۔جن میں مخیر حضرات کے ساتھ مل کر قیدیوں کیلئے جیلوں کے اندر سہولیات فراہم کرنے کا بندوبست کیا گیا۔تقریبا ساڑھے تین سو کے لگ بھگ ایسے قیدیوں کا جرمانہ ادا کرکے ان کو رہائی دلوائی گئی جو جرمانہ کی رقم نہ ہونے کی سبب عرصہ دراز سے جیلوں میں قید تھے۔ وفاقی محتسب نے مختلف یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں کے تعاون سے قیدیوں کے لئے مفت تعلیم کا بندوبست کیا،ملک بھرکے جیلوں میں قید خواتین اور بچوں کو عید کے موقع پر نئے کپڑے کھانے پینے کی اشیا اور بچوں کو تحائف دیئے گئے۔بعد ازاں سپریم کورٹ نے وفاقی مختسب کی ذمہ داری لگائی کہ جیلوں کی اصلاح اور قیدیوں کو سہولیات کے حوالے سے سفارشات پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے بھی وفاقی محتسب اقدامات اٹھا ئیں۔ اس سلسلے میں وفاقی محتسب سپریم کورٹ کو پانچ سہ ماہی رپورٹ پیش کر چکے ہیں،ہر رپورٹ سے قبل وفاقی مختسب سید طاہر شہباز خود چاروں صوبوں میں جاکر چیف سیکریٹریز آئی جی جیل خانہ جات اور دیگر متعلقہ حکام سے ملاقاتیں کرتے رہے جس سے ملک بھر کی جیلوں میں کافی بہتری آئی ہے، قیدیوں کو مفت تعلیم سمیت متعدد سہولیات فراہم کی گئیں اور ذہنی مریض قیدیوں کو عام قیدیوں سے الگ رکھنے کی ہدایت کی گئی۔ وفاقی محتسب نے پینشنرزکے مسائل کے حل کیلئے بھی متعدد اقدامات اٹھائے۔ قبل ازیں پنشنرز صرف نیشنل بینک سے تنخواہ لے سکتے تھے،پنشنروں کو ہر ماہ اپنی پنشن وصول کرنے کے لیے گھنٹوں نیشنل بینک کے باہر لمبی قطاروں میں کھڑا ہونا پڑتا تھا۔ وفاقی محتسب نے اس صورتحال کا نوٹس لیا اور یہ ہدایات کی کہ پنشنروں

کی پنشن ان کے اکاؤنٹ میں بھیجی جائےاور وہ جب چاہے اے ٹی ایم کارڈ یا چیک کے ذریعے رقم نکلوا لیں۔ علاوہ ازیں وفاقی محتسب نے تمام سرکاری اداروں کو ہدایت کی کہ وہ اپنے ہاں کم از کم گریڈ 19 کے افسر کی سربراہی میں ایک پنشن سیل قائم کریں جو ریٹائر ہونے والے سرکاری ملازم کی ریٹائرمنٹ سے ایک سال قبل اس کی پنشن کے کاغذات مکمل کرنا شروع کر دے تاکہ اس کی پنشن اور دیگر واجبات کی ادائیگی میں تاخیر نہ ہو بیرون ملک پاکستانیوں کی سہولت کے لیے وفاقی محتسب نے پاکستان کے تمام بین الاقوامی ہوائی اڈوں پر ون ونڈو ڈیسک قائم کیے ہیں جہاں بیرون ملک پاکستانیوں سے متعلق چودہ سرکاری محکموں کے افسران چوبیس گھنٹے موجود رہتے ہیں اور مسافروں کی شکایات کو موقع پر حل کر دیا جاتا ہے وفاقی محتسب نے پاکستان کے تمام سفارتخانوں کو ہدایت کر رکھی ہے کہ پاکستان کے سفیر ہفتے میں ایک دن بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے مختص کریں اور ان کی شکایت سن کر ان کا فورا ازالہ کر یں۔