یہ لوگ کب سدھریں گے

تحریر:مرادعلی مہمند ۔۔۔۔ کورونا وائرس اپنی جنگ پوری دنیا سے اکیلے لڑ رہا ہے جس میں 185 سے زائد ممالک شامل ہیں. کورونا کے اپنے شرائط ہیں اگر آپ نے زندہ رہنا ہے. چا ئنہ میں وائرس آیا اور تین ماہ میں پوری دنیا جان گئی ہے کہ یہ کورونا کیا بلا ہے؟ آپ نے پوری دنیا کو دیکھا کہ وہ کورونا کے شرائط اور لوازمات پورے کر رہے ہیں جس میں لاک ڈاون اور سماجی دوری سب سے اہم ہے. لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں اس پر عمل نہ ہو سکا. حکومت نے لاک ڈاؤن کی پالیسی مارچ سے اب تک اپنا ئی لیکن اب ناممکن تھا کہ لوگوں کو گھروں میں محصور رکھے اور حکومت نے لوگوں کو کاروبار مجبوراً کھولنے کی اجازت دی گئی ہیں.مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے لوگ نہ تو سماجی دوری کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور نہ کاروباری طبقہ ان شرائط پر کام کر رہی ہے تو نتیجہ یہ نکلا کہ اب ہر روز کورونا کے کیسزز میں تیزی آرہی ہے. مغربی ممالک نے بھی لاک ڈاؤن میں نرمی کی ہے لیکن وہ لوگ کنٹرول ریٹ میں جارہے ہیں. وجہ کیا ہے؟ وہ زیادہ تعلیم یافتہ ہے. انھوں نے کورونا کو سنجیدگی سے لیا ہوا ہے. وہ زیادہ مہذب ہیں. لیکن ہمارے لوگوں نےکورونا سے مزاق بنایا ہوا ہے.سی ایس پی افسران جو پاکستان کی سب سے بڑی سروس تصور کی جاتی ہے وہ سارے افسران پورے پاکستانیوں کو منتیں کررہے رہے ہیں کہ گھروں میں رہو. دکانوں کی چیکنگ ہر روز ہوتی ہے. سارا دن یہ لوگ یہی کام کرتے ہیں دکاندار شٹر کھولتے ہیں اور یہ افسران مقرر وقت کے بعد بند کر دیتے ہیں کیونکہ وہ دکاندار حکومتی پالیسی اور شرائط کی خلاف ورزی کرتے ے ہیں.یہ سی ایس پی افسران دن رات کی محنت کے بعد یہاں پہنچے ہیں. چاہیے تو یہ تھا کہ یہ افسران کوئی بڑا کام کرے جو ملک کی ترقی میں کام اے یہ کام تو عام بندہ بھی کر سکتا ہے کہ روٹی کی دکان چیک کرو سبزی کی دکان چیک کرو فروٹ والا چیک کرو. میں ان کے اعلی تعلیم کے حصول اور محنت کے حوالے سے کہہ رہا ہوں جو ہمارے عام لوگوں کی وجہ سے مجبوراً بازاروں میں سارا دن پھرتے رہتے ہیں اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پکڑ کر چھوڑ دیتے ہیں اور کل وہی دکان پھر کھلی ہوتی ہے پھر یہ افسران جاتے ہیں پر پکڑتے ہیں اور پھر چھوڑ دیتے ہیں جرمانے کے بعد. اب یہ سلسلہ کب تک چلے گا آیا ہماری پوری زندگی ایسی طرح گزر جاے گی آیا قانون کھبی لاگو نہیں ہوگا. ہمارےلوگ کب سدھریں گے کب عقل سمجھ سے کام لیں گے آیا ہم ساری عمر ایسی طرح سے ترقی پذیر ملک رہے گے پچپن سے کتابوں میں پڑھ رہے ہیں کہ پاکستان ترقی پذیر ملک ہے کھبی یہ نہیں پڑا کہ ترقی یافتہ ملک ہے یا بن گیا ہے. 1947 سے لے کر 2020 تک ترقی پذیر ہی رہا. قومیں کہاں سے کہاں تک پہنچ گئی ہیں صرف سوچ کی وجہ سے.کورونا کے حوالے کہتے ہیں چہ اسے گپ دے یعنی مزاق ہے. پتہ نہیں ان کو کون سمجھائے . لاک ڈاؤن کے بعد پوراملک سڑکوں پر امنڈ آیا. یقین جانیں حکومت عید کے بعد اپنے فیصلے پر نظرثانی ضرور کریں گے اور یہ سی ایس پی افسران ایک بار پر پکڑ د کھڑ میں لگ جائیں گے. پشاور کے سارے بازاروں میں اب یہ مشہور ہو گیا کہ الا میڈیم رالا او میڈیم لاڑا یعنی خواتین مجسٹریٹ جب چھاپہ مارتی ہیں تو دکاندار بھاگ جاتے ہیں یا دکان کا شٹر بندکر دیتے ہیں اور جب وہ چلی جاتی ہیں تو دوسرا دوست آواز دیتا ہے کہ میڈیم لاڑا کہ میڈیم چلی گئی. اب انھوں نے سیدھا نہیں ہونا اور میڈیم بچاری نے ہر روز ان کے پیچھے ڈنڈا اٹھایا ہوتا ہے. پھر بعض لوگ کہتے ہیں کہ ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن زیادتی کرتے ہیں. اللہ کے بندوں جو ہدایات آپ کو حکومت دے رہے ہیں اس پر عمل کریں یہ افسران بھی سکھ کا سانس لے لیں گے اور آپ لوگوں کا کاروبار بھی چل پڑے گا.ہر دکان کے باہر 15 اور 20 خواتین بچوں سمیت کڑی ہونگی. خواتین کا ذکر اس وجہ سے کیا کہ لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد زیادہ تر خواتین عید کے خریداری کے لئے گھروں سے نکلی ہیں. ٹیکنالوجی نے پوری دنیا کی زندگی آسان کر دی ہے جو لوگ سمجھ بوجھ رکھتے ہیں تو آن لائن خریداری کرے بلا ضرورت بازار نہ جاے جہاں پر آن لائن سہولت نہیں تو وہ گاوں دیہات کے علاقے ہونگے وہ لوگ طریقے سے اور حکومتی شرائط پر خریداری کرے.حکومت لاک ڈاؤن میں نرمی کی بجاے اس کو 24 گھنٹے کھولے تاکہ لوگ مختلف اوقات میں ضروری خریداری کے لئے نکلے چاہے رات 2 بجے ہو یا صبح کے 8 بجے. اس طریقے سے بازاروں میں رش کم ہو سکتا ہے. لیکن مخصوص اوقات کی وجہ سے رش بڑھ گیا ہے. پشاور چھوٹا شہر ہے یہ بھی راولپنڈی کی طرح گنجان آباد ہو گیا ہے ایک ہی یونیورسٹی روڈ اور رنگ روڈ ہے جس پر پورے شہر کا ٹریفک نظام رواں دواں ہے.سارے عوام سے اپیل ہے کہ سنجیدگی کا مظاہرہ کرے اور تہذیب یافتہ قوم کا ثبوت دے. میری رائے سے آپ کو ضرور اختلاف ہو گا لیکن سنجیدہ قومیں ہی ترقی کرتی ہے. اللہ ہمارا حامی و ناصر.