ماہ رمضان المبارک اور لاک ڈاؤن

تحریر:مراد علی مہمند۔۔ کورنا وائرس نے زندگی کو عذاب بنا دیا ہے. لوگ ذہنی طور پر بھی معذور ہو گئے ہیں. ہر وقت سوشل میڈیا پر کورونا ہی کورونا ہے. آخر جاے تو کہاں جاے. جیسا کہ سب کو معلوم ہے کہ رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہو گیا ہے اور پوری دنیا کے مسلمان رمضان کے روزے رکھ رہے ہیں. اور پوری دنیا میں کورونا کی وجہ سے لاک ڈاون ہے. لوگ گھروں میں محصور ہوگئے ہیں.خیبرپختونخوا کی حکومت نے پہلے روزے کو چار بجے تک ہر قسم کی دکان کو بند کر دینے کے احکامات جاری کر دیئے. دیکھتے ہی دیکھتے پورے صوبے میں ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریٹشن متحرک ہو گی اور دکانوں کو بند کر دینا شروع کر دیا. نوبت یہاں تک آگئی کہ تندور بھی بند ہو گئی اور پہلے روزے کو مزدور طبقہ حیات آباد میں روٹیوں کے دکانوں پر جات رہے لیکن دکانیں بند پڑی تھی. پتہ نہیں بچاروں نے کس طرح افطاری کی. میرے پڑوس میں گھر زیر تعمیر ہورہا ہے میں نے ان کو دو روٹیاں دی.پورے صوبے میں صرف اور صرف دوائیوں کی دکانیں کھلے رہے گی اور باقی دکانیں 4 بجے کے بعد بند.لوگوں نے تنظیموں کے زریعہ ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریٹر کو آگاہ کیا کہ غریب طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہورہا ہے. تیسرے روزے کے اختتام پر اور رات کو صوبائی حکومت نے اپنے فیصلے پر نظرثانی کی اور روٹیوں کی دکان کے ساتھ ریڑھی والے کو بھی اجازت دے دی. صوبائی حکومت کے ایسے فیصلے کو لوگوں کو سراہا.آج دفتری کام سے 4 بجے کے بعد حیات آباد سے یونیورسٹی ٹاون اکیڈمی جانا ہوا یقین کرے ساری کی ساری دکانیں بند تھی. صرف بورڈ بازار میں چار پانچ ریڑھی والے فروٹ فروخت کر رہے تھے. وزیراعظم پاکستان عمران خان نے بھی کہا ہے کہ مکمل لاک ڈاون پورے پاکستان میں ممکن نہیں ہے. ایسی لیے اب وفاقی حکومت جلد سمارٹ لاک ڈاؤن پر عمل درآمد کریں گے.صوبائی حکومت کو اس لاک ڈاون میں تبدیلی لانی چاہیے. صبح سے 6 بجے تک ساری دکانیں کھلی رکھی جاے اور ہفتہ اتوار مکمل لاک ڈاون کی بجاے 2 بجے تک لاک ڈاون کیا جاے. لوگ گھروں سے کم نکلے صرف سودا سلف خریدنے کے لیے گھرانہ کا ایک بندہ مارکیٹ جائے. بات رہی نماز اور تراویح کی تو پہلے گھر میں کوشش کرے کہ پڑھے اگر گھر پر ممکن نہیں تو مسجدوں میں 6 فٹ کے فاصلے پر نماز ادا کرے.
خدانخواستہ اگر یہ کورونا رمضان المبارک میں بھی ختم نہ ہوا یا کم نہیں ہوا تو وفاقی اور صوبائی حکومت اس لاک ڈاون اور سرکاری چھٹیوں میں توسیع کریں گے. ملکی معیشت بہت کمزور ہے اگر یہی سلسلہ چلتا رہا تو سال کے آخر میں حکومت کے سارے خزانے خالی ہو جائے گے. اور ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لیے حکومت کے پاس پیسے نہیں ہونگے.رمضان المبارک کا مہینہ ہر سال جشن کے ساتھ منایا جاتا تھا بازاروں کی رونقیں رمضان المبارک میں ہی بحال ہوتی تھی کپڑوں کی دکانیں پکوڑے کے دکانیں سموسوں کی دکانیں بیکری اور چارٹ کی دکانیں ہر گلی گاوں اور شہر میں موجود اور آباد ہوتی تھی لیکن اس سال کرفیو کا سماں ہے بس ایک دوسرے کے ساتھ صرف موبائل اور واٹس ایپ پر ہی رابطہ ہے.اس مشکل کے وقت میں ہمیں غریبوں کا خاص خیال رکھنا چاہیے کیونکہ حکومت کے لیے یہ ناممکن ہے کہ پورے پاکستان کے غریبوں کے چھولے جلاے. اللہ پوری امت مسلمہ اور انسانیت پر رحم کرے آمین ثم آمین