کورونا میں گھریلو تشدد

تحریر:مراد علی مہمند ۔
کورونا وبا بین الاقوامی مرض ہے اسکی ابتدا چا ئنہ سے ہوئی اور ہوتے ہو ئے پوری دنیا میں پھیل گیا. اس کو کنٹرول کرنے کے لیے لوگوں کو گھروں میں محصور کر دیا گیا ہے جس کو لاک ڈاؤن کہتے ہیں. بغیر ضرورت باہر جانے سے حکومت نے منع کیا ہوا ہے یہ لاک ڈاؤن صرف پاکستان میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں ہے جس میں امریکہ جرمنی اٹلی ساوتھ کوریا انڈیا وغیرہ شامل ہیں.پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور یہاں پر زیادہ تر گھرانوں میں جائنٹ فیملی سسٹم موجود ہے پورے گھر کا ایک بڑا سربراہ ہوتا ہے اور وہ پورے گھرانے کا ترتیب چلاتا ہے.مغربی ممالک جس میں مشین کی طرح زندگی گزارنی پڑتی تھی لوگ صبح سے لے کر رات تک اپنے زریعہ معاش میں مصروف رہتے تھے. کسی کو ایک دوسرے کو وقت دینے کے لیے فرست نہیں تھی. مغربی ممالک میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے لوگوں گھروں کے اندر رہ گے ہیں ان کے قانون بھی سخت ہیں جو بندہ لاک ڈاون کی خلاف ورزی کرتا ہے پولیس ان کو گرفتار کرتی ہے. اس لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھروں کے اندر میاں بیوی کے جھگڑے روز کا معمول بن گئے ہیں گھریلوں تشدد میں بے پناہ اضافہ ہوگیا بین الاقوامی سطح پر بہت سارے کیسزز رونما ہو ئے اور پولیس ہیلپ لائن کو بہت سارےکالز ایسی گھریلوں تشدد کے لیے موصول ہورہے ہیں. بہت سی جگہوں پر تو بات طلاق تک پہنچ گئی ہے.اس کے برعکس الحمدللہ پاکستانی معاشرہ اسلامی اصولوں پر عمل پیرا ہے جہاں پر لوگ محبت سے رہ رہے ہیں اور گھر کے تمام افراد اس وبا کے اختتام کے لیے اللہ سے دعا کررہے ہیں. ایک طرف سے کورونا وائرس نے نظام زندگی مفلوج کر دی تو دوسری طرف بہت سارے مغربی گھرانوں میں بے اتفاقی اور نفاق کے پھوٹ کی بھی وجہ بنی.گھریلوں تشدد عام الفاظ میں گھر میں موجود خواتین پر جسمانی زہنی تشدد کرنا ہے. پاکستان کے کچھ گھرانے اسکا شکار ہونگے لیکن وہ بھی جہالت کی وجہ سے. کورونا نے لوگوں کو اپنے گھر والوں کے ساتھ سب سے زیادہ وقت گزارنے کا موقع دیا ہے یہ موقع پچھلے 100 سالوں میں کسی کو بھی نصیب نہیں ہوئی. اللہ سے دعا ہے کہ اس مرض کو رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں اس کو ختم کرے آمین ثم آمین تاکہ روزمرہ کی زندگی فعال ہو سکے بچے سکول جاے مزدور طبقہ دیہاڑی کے لیے جاے نوکر پیشہ لوگ اپنے دفتروں کو جاے. لوگ ایک دوسرے کے شادیوں میں شرکت کر سکے ایک دوسرے کو دعوت دے سکے. عید پر ایک دوسرے کے گھروں پر جا ئے.ہمیں گھریلوں تشدد کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے تاکہ گھروں میں موجود افراد پر کسی بھی طبقے میں کسی بھی فرد پر یہ تشدد نہ ہو. اسلامی کلچر مغربی کلچر سے بلکل مختلف ہے ایسی لیے کورونا وائرس میں جو سماجی مسائل آٹھ رہے ہیں وہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں.اللہ سارے امت پر اپنا فضل کرے آمین ثم آمین