لڑکیوں کی تعلیم میں درپیش مسائل

تعلیم نسواں میں حائل مشکلات،حکومت اور والدین کی ذمہ داریاں
1۔کم عمری، بچپن اور زبردستی کی شادیاں،2۔ سکولوں میں بنیادی سہولیات کی کمی،3۔تعلیمی اداروں پر عوام کا عدم اعتماد،4۔ سکولوں تک نقل و حمل کے محدود وسائل،5۔خواتین اساتذہ کی کمی،6۔محدود آمدنی،7۔منفی ثقافتی اقدار،8۔تعلیمی اداروں کا گھروں سے دور ہونا،9۔ والدین کے حفاظتی معاملات پر تحفظات،10۔ کم عمری میں وضع حمل،12۔ ماہواری سے متعلق حفظان صحت کے انتظام کے مسائل
عالمی معیاری جائزہ اور لڑکیوں کی تعلیم
اقوام متحدہ کے عالمی معیاری جائزے 2017کے دوران حکومت پاکستان نے لڑکیوں کے لیے تعلیم تک رسائی اور معیار تعلیم کو بہتر بنانے دوسرے ممالک کی طر ف سے پیش کردہ تجاویز کو تسلیم کرنے کاو عدہ کیا ہے۔
تسلیم کردہ تجاویز میں شامل ہے کہ
٭حکومت پاکستان تمام بچوں کے لیے بغیر کسی امتیازی سلوک کے تعلیم تک رسائی ممکن بنانے کے لیے کوششیں جاری رکھے گی۔
٭حکومت دشوار گزار علاقوں میں پانچ سال سے سولہ سال تک کی تمام عمر کے بچوں خاص طور پر لڑکیوں کو معیاری بنیادی اور ثانوی تعلیم تک رسائی اور فراہمی کے لیے وسائل کی سرمایہ کرے گی۔
٭حکومت خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی کو ممکن بنانے کے لیے امتیازی سلوک اور صنفی تفاوت کے خلاف اقدامات اٹھائے گی۔
٭حکومت خواتین اور لڑکیوں کو با اختیار اور خود انحصار بنانے کے لیے تعلیم تک بہتر رسائی کو ممکن بنائے گی۔
٭حکومت عالمی معیاری تعلیم کے مطابق تعلیم تک رسائی کو ممکن بنانے کے لیے تعلیم پر بنائے گئے وفاقی اور صوبائی قوانین کا نفاذ یقینی بنائے گی۔
٭حکومت تعلیم کے ہر درجے پر بلا صنفی تفریق اور آمدنی کی سطح کے نام، بچوں کی رسائی اور اندراج کی شرح بڑھانے کے لیے کوششیں جاری رکھیں گی۔
پائیدار ترقی کے اہداف اور لڑکیوں کی تعلیم
تمام افراد کے لیے بلا تفریق معیاری مفت اور باضابطہ تعلیم کی فراہمی کویقینی بنانااقوام متحدہ کے فراہم کردہ پائیدار ترقی کایجنڈا2030کے اہداف میں سے ایک اہم ہدف ہے لڑکیوں کومعیاری تعلیم کی فراہمی اور صنفی مساوات کا فروغ پائیدار ترقی کے ہدف چار کاا ہم حصہ ہے
پائیدار ترقی کے ہدف چار کے حصول کے لیے اقوام متحدہ تمام ممالک پر زور دیتا ہے کہ وہ تعلیم کی فراہمی کے لیے زیادہ سے زیادہ اخراجات کی تخصیص، مزید سکولوں کی تعمیر، اساتذہ کی تعیناتی اور دوسری تمام سہولیات کی فراہمی نہ صرف پائیدار ترقی کے ہدف چار بلکہ تمام سترہ اہداف کی تکمیل اور حصول کے لیے ضروری ہے حکومت پاکستان نے 2016میں ایجنڈا2030کے حصول کے لیے لڑکیوں کی مفت اور ارزاں تعلیم تک رسائی اور تعلیمی سہولیات کی بہتری کے لیے اقدامات اٹھائے۔
لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی کو ممکن بنانے کے لیے چند تجاویز
1۔ لڑکیوں کے لیے مفت اور لازمی تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے تعلیم کے بجٹ میں اضافہ کرنا چاہیے۔
2۔حکومت پاکستان کو مجموعی پیداوار کا چھ فیصد حصہ تعلیم کے لیے مختص کرنا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ زیادہ سے زیادہ فنڈز لڑکیوں کی تعلیم اور تعلیمی سہولیات کی بہتری کے لیے مختص کیے جائیں
3۔ لڑکیوں کے لیے زیادہ سے زیادہ سکول تعمیر کیے جائیں بالخصوص ابتدائی اور ثانوی تعلیم کے لیے۔
4۔ سکولوں میں خواتین اساتذہ کی تعیناتی کی جائے۔
5۔ تعلیمی اداروں میں لڑکیوں کے لیے خصوصی سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جائے جیسے بیت الخلاء صاف پانی کی فراہمی، سکولوں تک نقل و حمل کا انتظام، حفاظتی اقدامات، خواتین اساتذہ کی تعیناتی کو یقینی بنایا جائے۔
6۔ میرٹ اور قابلیت کی بنیاد پر اساتذہ کی تعیناتی کو یقینی بنایا جائے۔
7۔ اساتذہ کی ترقی کو سکولوں میں بچوں کی بہتر کارکردگی کے ساتھ مشروط کیا جائے۔
8۔ تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے اور تعلیمی اداروں میں بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لیے وسائل کی سرمایہ کاری کو بڑھایا جائے۔
9۔ بین الاقوامی معیار تعلیم کے مطابق تعلیم تک رسائی کو متعلقہ وفاقی اور صوبائی قوانین کے موثر نفاذکے لیے اقدامات اٹھائے جائیں۔
10۔ تعلیم تک رسائی کو خواتین اور لڑکیوں کے خلاف صنفی تفاوت اور امتیازی سلوک کے خاتمے بارے اقدامات اٹھائے جائیں۔

لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت
پاکستان میں مفت اور لازمی تعلیم کی فراہمی پاکستان بھر کے بچوں اوربچیوں کا بنیادی حق ہے اگرچہ پاکستان بھر میں بچوں کی تعلیم اور تعلیم کی راہ میں کئی دشواریاں حائل ہیں وہی لڑکیوں کی تعلیم اور اسے جاری رکھنا نہ صرف حکومت پاکستان محکمہ تعلیم بلکہ معاشرے کے تمام افراد کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے دیکھا گیا ہے کہ معاشرے کے بہت سے کردار کئی سماجی اور معاشرتی رویوں کو بنیاد بناکر لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت کو تسلیم نہیں کرپاتے جس کی وجہ سے بیشتر لڑکیاں اپنی تعلیم مکمل نہیں کر پاتی اور اپنے آئینی اور قانونی حق سے محروم رہتی ہیں لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت کو تسلیم کرنے کا مطلب معیار تعلیم اور تعلیمی سہولت کو اس طرح بہتر بنانا ہے کہ لڑکیاں اپنے حق تعلیم سے محروم نہ ہوسکے اور اسی کو بنیاد بناکر معیاری تعلیم تک رسائی کو اہم ترقیاتی ہدف کے طور پر پائیدار ترقی کے اہداف میں شامل کیا گیا ہے۔
ہمارے معاشرتی اور معاشی تناظر میں تعلیم تک رسائی کو یقینی بناناہی حق تعلیم کو تسلیم کرنا ہے لڑکیوں کو تعلیم فراہم کرنا نہ صرف ان کو معاشی طور پر خود مختاراور با اعتماد بناتا ہے بلکہ وہ ملک اور معاشرے کی ترقی میں بھی اپنا کردار کرنے کے قابل بن جاتی ہیں۔
لڑکیوں کی ثانوی تعلیم
دیکھا گیا ہے کہ عموماً لڑکیوں کو ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ثانوی تعلیم کی سہولیات تک رسائی ممکن نہیں ہو پاتی اور بیشتر لڑکیاں ثانوی تعلیم کو مختلف وجوہات کی بنا پر مکمل نہیں کرپاتی۔
اگرچہ حالیہ ادوار میں لڑکیوں کی تعلیم کو بہتر بنانے کے حوالے سے کئی قابل ذکر اقدامات کیے گئے ہیں لیکن ناکافی سہولیات، بچپن کی شادیوں کا رواج، والدین کا سکولوں اور حفاظتی اقدامات پر عدم اعتماد، لڑکیوں کی تعلیم جاری نہ رکھنے میں عدم دلچسپی، محدود ذرائع نقل و حمل اور گھر سے سکول تک لمبے فاصلے جیسی مشکلات کی وجہ سے ثانوی تعلیم کو جاری اور مکمل کرنے کے حوالے سے مسائل موجود ہیں جنہیں حل کرنے کے لیے پالیسی کو بہتر بنانا اورسائل کی سرمایہ کاری کو بڑھانا اور معاشرتی رویوں میں تبدیلی جیسے اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔
لڑکیوں کی ثانوی تعلیم اور فوائد
معاشی خود انحصاری،سماجی حیثیت میں بہتری اور اضافہ،کم عمری، بچپن اور زبردستی کی شادیوں کی شرح میں کمی،ماں اور بچے کی بہتر صحت
،بلند معیار زندگی،بچوں کی بہتر پرورش،سماجی اور قومی ترقی،زندگی کی بنیادی مہارتوں سے آگاہی،تشدد سے پاک زندگی کے مواقع،انصاف تک رسائی کے بہتر مواقع۔
پاکستان کا آئین اور تعلیم کا حق
آئین پاکستان کے آرٹیکل 25(اے) کے تحت پانچ سے سولہ سال تک کے تمام بچوں کو بلا تفریق مفت تعلیم فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے
تعلیم کا حق اور قوانین
آئین پاکستان میں اٹھارویں ترمیم کے بعد حکومت پاکستان نے تعلیم کے حق کو آرٹیکل25(اے) کے تحت آئین کا حصہ بنادیا جس کے بعد اس حوالے سے ملک میں مندرجہ ذیل مرکزی اور صوبائی قانون سازی کی گئی۔
1۔وفاقی دارالحکومت کا مفت اور لازمی تعلیم کے حق کا قانون 2012،2۔ سندھ حکومت کی مفت اور لازمی تعلیم کا حق کا قانون2013
3۔ بلوچستان لازمی تعلیم کا قانون 2014،4۔ پنجاب مفت اور لازمی تعلیم کا قانون 2014،5۔ خیبر پختونخوا مفت لازمی ابتدائی اور ثانوی تعلیم کی فراہمی کا قانون2017
لڑکیوں کی تعلیم اور عمومی صورتحال
1۔ محکمہ ابتدائی اور ثانوی تعلیم کے سروے2018 کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا میں ایک اعشاریہ آٹھ ملین بچے سکولوں سے باہر ہیں جو صوبے بھر کے پانچ سے سترہ سال تک کی عمر کے بچوں کی کل آبادی 23 فیصد حصہ ہیں۔
2۔ سروے کے مطابق سکولوں سے باہر بچوں کی تعداد میں 64 فیصد لڑکیاں جبکہ 36 فیصد لڑکے شامل ہیں۔
3۔ پاکستان تعلیمی شماریاتی رپورٹ2015-16 کے مطابق خیبر پختونخوا میں 51 فیصد لڑکیاں سکول نہیں جا پاتیں۔
4۔ محکمہ ابتدائی و ثانوی تعلیم خیبر پختونخوا کی سالانہ شماریاتی رپورٹ2017-18 کے مطابق ابتدائی درجے پر21 فیصد لڑکے اور45.5 فیصد لڑکیاں سکولوں سے باہر ہیں۔
5۔محکمہ ابتدائی و ثانوی تعلیم خیبر پختونخوا کے جاری کردہ سروے کے مطابق غربت، تعلیم میں عدم دلچسپی،سکولوں میں بنیادی سہولیات کی غیر موجودگی، بچوں کے سکولوں سے باہر ہونے کی بڑی وجوہات میں شامل ہیں۔
6۔محکمہ ابتدائی و ثانوی تعلیم خیبر پختونخوا کی سالانہ شماریاتی رپورٹ2017-18 کے مطابق 44فیصد بچے تعلیم کے ابتدائی درجے کے بعد اور 40 فیصد بچیاں ثانوی درجے کے بعد تعلیم جاری نہیں رکھ پاتیں۔
7۔محکمہ ابتدائی و ثانوی تعلیم خیبر پختونخوا کی سالانہ شماریاتی رپورٹ2018 کے مطابق صوبے میں سیکنڈری سکولوں کی تعداد5538ہے جس میں سے39 فیصد لڑکیوں کے ہیں۔
8۔پاکستان اپنے مجموعی ملکی پیداوار کا 3.02فیصد تعلیم پر خرچ کرتا ہے جبکہ عالمی معیار کے مطابق ملکی پیداوار کا چار فیصد سے زائد حصہ تعلیم پر خرچ ہونا چاہیے۔