لوگ ڈائریکٹ بینک جائیں پیسے وہاں سے لیں

سکھر:چیئر پرسن بینظیر انکم سپورٹ پروگرام روبینہ خالد نے کہا ہے کہ خواتین کو ماہانہ قسط کی شفاف ادائیگی کے لئے بینک اکائونٹ کی طرف جا رہے ہیں تاکہ غیر قانونی کٹوتی كو روكا جا سکے ، کٹوتی کی شکایت كو ہم خود مانیٹر کرنا چاہتے ہیں ۔ ان خیالات کااظہار انہوں نے سکھر میں میڈیا سے بات چیت کے دوران کیا ،قبل ازیں انہوں نے سکھر میں بی آئی ایس پی کیمپ سائٹس کا دوره کیا اور خواتین کے مسائل سنے اور ان کو حل کرنے کےلئے موقع پر احکامات جاری کئے ۔ پیر کے روز چیئرپرسن بی آئی ایس پی روبینہ خالد سکھر اور خیرپور کے دورے پر یہاں پہنچیں ۔انهوں نے سکھر میں واقع بی آئی ایس پی بچل شاہ کیمپ سائٹ کا دوره کیا ،وہاں موجود خواتین سے ملاقات کی ، ان کے مسائل سنے اور مستحق خواتین کے مسائل كو فوری طور پر حل کرنے کےلئے متعلقہ افسران کو احکامات جاری کئے ۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پورے پاکستان میں 95 لاکھ سے زائد ہمارے بینیفشری ہیں ، ہم نے کیمپ سائیٹ کا اس دفعہ فیصلہ اس لئے کیا ہے کہ کیوں کہ ہمیں بہت سی شکایتیں موصول ہوئی تھیں کہ قسط میں سے کٹوتی کی جا رہی ہے ، دکاندار اپنی من مانی اور کٹوتی کر رہے تھے ۔ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اس لیے کیمپ سائٹ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے کہ ہمارا عملہ بھی موجود ہوتا ہے ، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لوگ یہاں موجود ہیں جو غیر قانونی کٹوتی كو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔روبینہ خالد نے کہا کہ صاف اور شفاف ٹرانزیشن كو یقینی بنانے کےلئے کیمپ سائٹ کے بعد ہم انشاءاللہ بینک اکاؤنٹس کی طرف چلے جائیں،اس کا مقصد ہے کہ لوگ ڈائریکٹ بینک جائیں پیسے وہاں سے لیں، یہ جو بیچ میں ریٹیلرز اور ایجنٹس ہیں ان کا کردار ختم ہو جائے ۔ انهوں نے کہا کہ ہمارا جو سکور 32 پی ایم ٹی ہے اگر وہ اس سے نکل جاتے ہیں تو وہ ہمارے بینیفیشری نہیں ہوں گے،ہم اس کے علاوہ وسیلہ روزگار بھی شروع کرنے جا رہے ہیں تاکہ لوگوں کو اچھی زندگی گزارنے کے لیے کوئی روزگار یا ٹریننگ دے سکیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ آئندہ قسط بینکوں کے ذریعے کریں ،اس سلسلے میں مختلف بینکوں کو بھی شامل کر رہے ہیں تاکہ زیادہ بینک ہوں اور لوگوں کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے ، بینکوں کے درمیان مقا بلہ بھی بڑھے گا اس سے وہ اچھی سروس فراہم کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم چاہ رہے تھے کہ کٹوتی کی شکایت کو ہم خود مانیٹر کر سکیں اور انشاءاللہ ہم بینکنگ ماڈل کی طرف جا رہے ہیں تاکہ پیسے ڈائریکٹ ان کے اکاؤنٹس میں آئیں ۔