آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیر نگرانی مسلح افواج نے دہشتگردوں کی کمر توڑ دی

پاک سرزمین پر دہشت گردوں کو دوبارہ قدم نہ رکھنے دینے کے عزم کے ساتھ افواج پاکستان کی جانب سے بہت سے اقدامات اٹھا ئے جارہے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف افواج پاکستان کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں۔پاکستان کو 1979 کی افغان روس جنگ کے بعد ہمہ وقتی غیر مستحکم افغانستان سے قربت کی وجہ سے دہشت گردی کا سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا اور 1979 کی افغان روس جنگ کے بعد سے اس خطے میں بنیاد پرستی داخل ہوئی۔ دہشت گردی کے ایک بڑے حملے میں جس سے پاکستان اس وقت سے گزرا ہے۔بنیاد پرستی اور دہشت گردی کے کثیر سر والے سانپ کے ذریعہ زہر کی آمیزش کا عروج 2006-2014 کا دور تھا۔ پاک فوج نے دہشت گردی کا بہادری سے مقابلہ کیا اور دنیا کی وہ واحد فوج بن گئی جس نے کئی فوجی آپریشنز کے ذریعے بیرونی مدد کے بغیر دہشت گردی کو شکست دی، ضرب عضب کا آغاز 15 جون 2014ء کو کیا گیا۔ دہشت گردوں کا کلی خاتمہ کرکے پاکستان کے مستقبل کو محفوظ بنانا اس کی حتمی منزل قراردی گئی۔اس بات کا بھی عزم کیا گیا کہ یہ آپریشن بلا امتیاز کیا جائے گا۔ آپریشن کے دوران دہشت گردوں کے خلا ف پاک فوج کو بہت سی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں اور طے شدہ منصوبے کے مطابق وہ اپنے اہداف حاصل کرتی جارہی ہیں۔آپریشن کے ابتدائی اہداف میں دہشت گردی اور دہشت گردوں کا پاک سرزمین سے مکمل خاتمہ ، ان کے ٹھکانوں کو مکمل طور پر تباہ کرنا، خیبر پختو نخوا کے قبا ئلئ علاقوں میں بحالی اور ترقی کے نئے دور کا آغاز کرنا شامل تھے تاہم وقت کے ساتھ ساتھ مختلف پہلوؤں پر جائزے کے بعد ان اہداف اور وسعت میں میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اس وقت کےچیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے بعد دہشت گردی کے خلاف آپریشنز کو کور کرنے والے ایک فوجی قیادت جو ہمارے سابقہ ​​وفاقی انتظامی قبائلی علاقوں، وادی سوات اور دیگر تمام افغان سرحدی علاقوں میں اندرونی طور پر بے گھر ہونے والے لوگوں کی بحالی کا انتظام کر سکے۔یہ وہ وقت تھا جب ہمیں ایک نئے چیف آف آرمی سٹاف کی ضرورت تھی جو دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو کیفر کردار تک پہنچائے۔یہاں ہمارے پاس نئے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ تھے جن کا مسکراتا چہرہ، باپ جیسی شخصیت اور نرم دل طبیعت نے لوہے کی مٹھی بھری پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو حیرت میں ڈال دیا۔ یہ وہ وقت ہے جب خیبر پختو نخوا اور اسلام آباد کی سول حکومتیں متاثرین کی سماجی، معاشی اور نفسیاتی بحالی کی ذمہ داری قبول کرنے سے کتراتی تھیں اور سیاسی قیادت ان نکات پر عمل درآمد میں اپنا کردار ادا کرنے میں عملی طور پر ناکام رہی جس کا انہوں نے نیشنل ایکشن پلان میں وعدہ کیا تھا۔ نیشنل ایکشن پلان کے کل 20 نکات میں سے 9 نکات پاکستان کی مسلح افواج کے دائرہ کار میں آتے ہیں جن پر فوج نے کامیابی سے عمل درآمد کیا ہے۔ نیشنل ایکشن پلان پر عمل کرتے ہوئے، دہشت گردی کے خاتمے اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے، فرقہ وارانہ، انتہا پسندی اور نفرت انگیز مواد پر مشتمل لٹریچر پر پابندی لگا دی گئی اور اسے ضبط کر لیا گیا،آپریشن ردالفساد کو پانچ سال مکمل ہو گئے ہیں۔ ملک کے طول و عرض میں دہشتگردوں اوران کے سہولت کاروں کے خلاف کامیاب آپریشنزکئے گئے، قوم نے سکیورٹی فورسز کیساتھ مل کر پاکستان کی تصویر میں امن کے رنگ بھر دیئے۔ ضم شدہ قبائلی علاقوں سے گوادر تک ترقی کے نئے دور کا آغاز ہوگیا۔آپریشن ردالفساد کے ذریعے ملٹری کورٹس کے تحت دہشتگردوں کے مقدمات کی تیزی سے سماعت ہوئی اور 78 سے زائد دہشتگرد تنظیموں اور سرکردہ دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کی گئی۔ اس دوران 1200 سے زائد شدت پسندوں کو قومی دھارے میں واپس بھی لایا گیا۔آپریشن ردالفساد کے دوران سکیورٹی اداروں کی استعداد کار میں اضافے کے لیے اہلکاروں کی تربیت کا خصوصی اہتمام کیا گیا۔
2017 سے اب تک ایف سی کے 67 نئے ونگز قائم کیے گئے جبکہ سکیورٹی فورسز نے ملک بھر میں چالیس ہزار سے زائد پولیس جوانوں اور بائیس ہزار کے قریب لیویز اور خاصہ دار اہلکاروں کو تربیت دی۔ انتہا پسندی اور نفرت انگیز مواد کے خلاف بھی مؤثر اقدامات کیے گئے۔
22 فروری 2017 کو شروع ہونے والے آپریشن ردالفساد کے تحت دہشتگرد تنظیموں کے مکمل خاتمے کے لیے کثیر الجہتی اقدامات کیے گئے۔ زمینی آپریشنز کے ذریعے نہ صرف دہشتگردوں کے زیر اثر علاقوں کو کلیئر کرایا گیا بلکہ وہاں سماجی اور معاشی بہتری کے منصوبے بھی مکمل کیے گئے۔
آپریشنز کے دوران پاک فوج کے 7 ہزار سے زائد جوانوں اور افسروں سمیت 86 ہزار سے زائد جانوں کی قربانی دی ہے جب کہ مجموعی طور پر ملک کو تقریباً 152 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔آپریشن ردالفساد کے دوران، سیکیورٹی اداروں نے دشمن انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے رچی جانے والی متعدد پاکستان مخالف سازشوں کا سراغ لگایا، اور دنیا کے سامنے ناقابل تردید ثبوت پیش کیے، کوئٹہ اور صوبے کے دیگر مقامات پر بلوچستان میں قائم تمام فارمیشنز دہشت گردوں اور دشمن عناصر کے خلاف جنگ میں تعینات اور مصروف رہیں۔فوج نےریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے والے عناصر کو شکست دی گئی ہے، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی قیادت میں پاک فوج نے تقریباً چھ سال تک دہشت گردی کے اثرات کو کم کرنے اور اپنی آنے والی نسلوں کو ایک بہتر پاکستان فراہم کرنے کے لیے آگے بڑھنے کے لیے کیا کردار ادا کیا۔آپریشن ردالفساد کا آغاز 22 فروری 2017 کو ہوا جس کے تحت ملک بھر میں انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنزکیے گئے۔ آپریشن ردالفساد کے تحت سکیورٹی فورسز نے اب تک کئی کامیابیاں حاصل کیں اور دہشتگردوں کو جہنم واصل کیا۔اسی طرح بارڈر مینجمنٹ کو بھی یقینی بنایا گیا جس کے تحت پاک، افغان سرحد پر فینسنگ کا کام جبکہ پاک، ایران بارڈر پر تقریبامکمل ہو چکا ہے۔ قبا ئلی اضلاع کے ناقابل رسائی علاقوں کو ملک کے دیگر حصوں سے ملانے کے لیے 1441 کلومیٹر طویل سڑکوں اور پلوں کا ایک وسیع نیٹ ورک بنایا گیا ہے۔ پاکستان دشمن عناصر نے علم کی روشنی سے انکار کرنے کے لیے بہت سے تعلیمی اداروں کو نقصان پہنچایا۔ پاک فوج نے نہ صرف جنگی بنیادوں پر سکولوں اور کالجوں کی تعمیر نو کی بلکہ جدید دور کی سائنسی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک جامع تعلیمی نظام بھی متعارف کرایا۔ اس کے علاوہ، لڑکیوں اور لڑکوں کے لیے پرائمری اور سیکنڈری اسکول الگ الگ بنائے گئے اور اس کے ساتھ ساتھ صاف ستھرا ہاسٹل بھی تعمیر کئے گئے۔ مزید جدید سہولیات سے آراستہ کیڈٹ کالج قائم کیے گئے، جو کہ روشن طلباء کے روشن مستقبل کی ضمانت دے رہے ہیں۔ خیبر پختو نخوا 886 تعلیمی اداروں سے 2 لاکھ 17 ہزار سے زائد طلباء اپنی تعلیم مکمل کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ آرمی چیف نے یوتھ پیکج کا اعلان کیا جو اے پی ایس کے طلباء کو مفت تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ ووکیشنل کالجوں میں رعایتی بنیادوں پر فنی تعلیم فراہم کرنے میں مدد فراہم کر رہا ہے۔ خیبر پختو نخوامیں صحت عامہ کے منصوبے بھی شروع کیے گئے، جن میں دیہی مراکز صحت، ڈسپنسریاں، بلکہ جدید دور کی مشینری اور دیگر سہولیات سے لیس ہسپتال شامل ہیں۔ ان منصوبوں سے روزانہ کی بنیاد پر تقریباً 11 ہزار 530 مریض مستفید ہو رہے ہیں۔خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع میں 31 ارب روپے کی لاگت سے 831 سے زائد ترقیاتی منصوبے شروع کیے گئے ہیں۔ جس سے مقامی لوگوں کو فائدہ ہو رہا ہے۔ پاک فوج کے ڈائریکٹ سپورٹ پروگرام کے ذریعے عوام کو فراہم کی گئی سیکیورٹی اور استحکام کی بنا پر، 558 منصوبے 2021 میں مکمل ہوئے۔ ان منصوبوں میں مارکیٹیں، تعلیمی ادارے، ہسپتال اور مواصلاتی ڈھانچہ شامل ہیں۔بلوچستان میں پاکستان مخالف عناصر امن و امان کی صورتحال کو خراب کرنے پر تلے ہو ئے ہیں۔ تاہم، سیکورٹی ادارےدن رات ان کے مذموم عزائم کو ناکام بنانے میں مصروف عمل ہیں۔وژن بلوچستان 2030 کے تحت پورے صوبے میں مواصلاتی انفراسٹرکچر، ہیلتھ کیئر اور سیف سٹی کے منصوبے شروع کیے گئے ہیں۔ مزید ڈیموں کی تعمیر، پینے کے صاف پانی کی فراہمی پر کام تیز رفتاری سے جاری ہے۔ مزید برآں، 9 کیڈٹ کالجوں کا قیام، اور خاص طور پر پنجگور میں کھجور کے پروسیسنگ پلانٹ کا قیام بلوچستان کی مستقبل کی خوشحالی میں سنگ میل ثابت ہوگا۔بلوچستان کے دور دراز علاقوں کو ملک کے دیگر حصوں سے ملانے کے لیے سڑکوں کا 1079 کلومیٹر طویل نیٹ ورک ابھی مکمل ہوا ہے۔ صحت کے حوالے سے صرف کوئٹہ اور بلوچستان کے دیگر علاقوں میں صحت کے 490 منصوبے مکمل کیے گئے ہیں۔ ان میں دل کے جدید ترین مراکز، گوادر ہسپتال، آواران، ژوب، خضدار اور پنجگور کی صحت عامہ کی سہولیات شامل ہیں جہاں سے روزانہ کی بنیاد پر 35 ہزار مریض مستفید ہو رہے ہیں۔مسلح افواج میں شمولیت کے لیے بلوچ نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کے لیے خصوصی رعایتی پروگرام متعارف کرایا گیا ہے۔بلوچستان میں تعلیم کے پھیلاؤ کے لیے 202 تعلیمی ادارے بنائے گئے ہیں، مستحق افراد کے لیے خصوصی نشستوں کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس وقت 1 لاکھ 50 ہزار سے زائد طلباء تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ پاکستان بھر کے تمام آرمی پبلک سکولوں میں بلوچستان کے طلباء کو تعلیم دی جا رہی ہے۔ ایف سی میں بلوچ نوجوانوں کی شمولیت اور بھرتی کی حوصلہ افزائی کے لیے مطلوبہ قد اور تعلیم کے معیاری طریقہ کار میں نرمی کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ چمالنگ ایجوکیشن سکیم سے 6 ہزار سے زائد طلباء پہلے ہی مستفید ہو چکے ہیں، جبکہ 4550 طلباء اس وقت اس منصوبے کے تحت تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔پیغام پاکستان نیشنل ایکشن پلان کا اہم حصہ ہے۔ پہلی بار 1800 سے زائد علمائے کرام نے مل کر دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف فتویٰ جاری کیا۔ یہاں وفاق المدارس اور علمائے کرام کی حمایت اور باہمی اتفاق رائے حاصل کرنے کے لیے جنرل باجوہ کی ذاتی کوششیں آتی ہیں، جنہوں نے نفرت پھیلانے والے عناصر کے خلاف انتہائی موثر بیانیہ بنانے میں واقعی مدد کی۔ انتہا پسندی کے انسداد کے لیے نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کا مینڈیٹ ہو یا کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی یا پھر دہشت گردوں کا پیچھا کرنے اور ان کے خاتمے کا ایکشن پلان ہو، سیکیورٹی اداروں نے رنگ و نسل کی تفریق کے بغیر پورے ملک میں انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشن کیا۔نفرت انگیز تقریر پر پابندی لگانے یا اشتعال انگیز مواد کو ضبط کرنے کے علاوہ، دہشت گردوں کے بیانیے اور اس کے پھیلاؤ کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کیا گیا اور اسے ناکام بنایا گیا۔پاکستان آرمی نے مدرسہ اصلاحات اور ملک میں مذہبی ہم آہنگی کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا۔ پیغام پاکستان نے درحقیقت نوجوانوں کو دہشت گردی کے گندے جال میں جانے سے بچانے میں مدد کی اور پرتشدد، عسکریت پسند اور انتہا پسندانہ نظریات کے بیانیے کو شکست دی۔