افغانستان کے اکاونٹس منجمد کرنے سے افغان عوام شدید متاثر ہورہے ہیں، وزیراعظم عمران خان

اسلام آباد:وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ طالبان کیساتھ کام کرنا ہی واحد حل ہے، انہیں تسلیم نہ کرنے اور اکاونٹس منجمد کرنے سے افغان عوام شدید متاثر ہورہے ہیں، وہاں بھوک اور غذائی قلت سے انسانی المیہ پیدا ہورہا ہے، اگر دنیا نے طالبان سے منہ موڑ لیا تو افغانستان افراتفری کا شکار ہو سکتا ہے، جلد یا بدیر انہیں تسلیم کرنا ہوگا، دنیا جو چاہتی ہے اس کیلئے انہیں ترغیب دے،سنکیانگ میں صورتحال ویسی نہیں جیسی مغربی میڈیا پیش کر رہا ہے،بھارت مقبوضہ کشمیر میں معصوم لوگوں کی نسل کشی کر رہاہے، امریکہ کی دہشتگردی کے خلاف جنگ سے دنیا بھر میں دہشتگردوں کی تعداد میں اضافہ ہوا، اس جنگ میں پاکستان نے 80 ہزار جانوں کی قربانی دی، امریکی ٹی وی سی این این کے جی پی ایس میزبان فرید زکریا کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ امریکہ کو سمجھنا چاہئے طالبان حکومت کو پسند نہ کرنا ایک چیز ہے لیکن یہ تقریباً 4کروڑ افغان عوام کی بقا کا سوال ہے جن میں سے نصف ا نتہائی خطرناک صورتحال سے دو چار ہیں، انہیں خوراک کے بحران اور غذائی قلت کا سامنا ہے،افغانستان کی سردی بہت ظالم اور بے رحم ہے، اگلے چند ماہ کے حوالے سے افغان عوام کے لئے ہر کوئی فکر مند ہے، وہاں بہت بڑا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے، یہ صورتحال پیدا ہوچکی ہے،ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ کیا طالبان کے علاوہ دیگر کوئی متبادل اس وقت موجود ہے ؟ نہیں، کیا یہ امکان موجود ہے کہ اگر طالبان کو نکال دیا جائے تو ان کی حکومت ختم ہو جائے گی ، نہیں، انہوں نے استفسار کیا کہ اگر طالبان حکومت ختم کر دی جائے تو وہاں تبدیلی کیا بہتری کا موجب بنے گی؟ وزیراعظم نے کہا کہ اسکے سوا کوئی راستہ نہیں کہ طالبان کے ساتھ ملکر کام کیا جائے اور ان سے انسانی حقوق بلخصوص خواتین کے حقوق اور شمولیتی حکومت کے حوالے سے بات کی جائے، اور دنیا جو چاہتی ہے اس کیلئے انہیں ترغیب دے، پابندیاں لگانے اور اکاؤنٹس منجمد کرنے سے انسانی المیہ جنم لے گا اور افغانستان افراتفری کا شکار ہوگا، انہوں نے کہا کہ صورتحال بہتر نہ ہوئی تو افغان پناہ گزینوں کا سیلاب آسکتا ہے،پاکستان میں پہلے ہی تیس لاکھ افغان پناہ ہیں، افغانستان میں امن دنیا اور پاکستان کے مفاد میں ہے، جلد یا بدیر افغان طالبان کو تسلیم کرنا ہوگا، طالبان سے کچھ لو کچھ دو کے اصول پر بات ہوسکتی ہے، اگر طالبان سے منہ موڑ لیا جاتا ہے تو پھر خدشہ ہے کہ افغانستان افراتفری کا شکار ہو سکتا ہے،وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان میں طالبان حکومت کی تشکیل کے بعد اڑھائی لاکھ پناہ گزین آئے جن میں دہشتگرد بھی تھے اور وہ بھی جنہوں نے پاکستان میں حملے کیے اور بلوچ شرپسند بھی، ایک سوال کے جواب میں وزیر اعظم نے کہا کہ طالبان ایک مضبوط نظریاتی تحریک تھی، وہ ایسے کلچر کی نمائندگی کرتے ہیں جو مغربی معاشروں کے لیے اجنبی ہے، ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ امریکہ کی دہشتگردی کے خلاف جنگ سے دنیا بھر میں دہشتگردوں کی تعداد میں اضافہ ہوا، امریکہ ڈرون حملوں کی پالیسی پر نظر ثانی کرے،امریکہ میں بتایا جاتا رہا کہ ڈرون حملے بہت کارگر ہیں اور ان میں دہشتگرد نشانہ بنتے ہیں لیکن جب آبادیوں پر بم گرتے ہیں تو صرف دہشت گرد زد میں نہیں آتے بلکہ عام لوگ بھی مرتے ہیں، اور امریکی عوام نہیں جانتے کہ اس جنگ میں کتنا کولیٹرل ڈیمج ہوا، امریکہ کا اتحادی ہونے کے ناطے بدلے کیلئے پاکستانی افواج اور عوام کو نشانہ بنایا گیا اور پورے ملک میں خودکش حملے ہوتے رہے ، وسیع پیمانے پر ہمارا جانی نقصان ہوا ،پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں 80ہزار جانوں کی قربانی دی، سنکیانگ کے حوالے سے سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ بھارت میں آر ایس ایس نظریے کی حکمرانی ہے ،مقبوضہ کشمیر اور سنکیانگ کے معاملے کا تقابلی جائزہ ہی سرے سے غلط ہے ،بھارت مقبوضہ کشمیر میں معصوم لوگوں کی نسل کشی کر رہاہے، مقبوضہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک مسلمہ متنازعہ علاقہ ہے دنیا اس تنازعے کو تسلیم کرتی ہے، انہوں نے کہا کہ ہم نے سنکیانگ کی صورت حال جاننے کیلئے اپنے سفیر معین الحق کو سنکیانگ بھیجا، ان کے مطابق صورتحال ویسی نہیں جیسی تصویر کشی مغربی میڈیا کر رہاہے۔