افغانستان کا پیسہ افغان عوام پر خرچ کیا جائے،وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی

اسلام آباد:وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ منجمد مالی اثاثے افغانستان کے عوام کے ہیں اور انہیں فیصلہ کرنا چاہئے کہ فنڈز کو کیسے استعمال کیا جائے گا۔ افغانستان کے منجمد اثاثوں کے حوالے سے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ پاکستان پہلے دن سے کہہ رہا ہے کہ افغانستان کے منجمد فنڈز کو غیر منجمد کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ افغانستان میں حالات خراب ہو رہے ہیں اور ملک میں بحران پیدا ہو گیا ہے۔اس بحران سے نمٹنا ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے۔انہوں نے یاد دلایا کہ 19 دسمبر کو اسلام آباد میں اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کی کونسل کے غیر معمولی اجلاس کے دوران ایک قرارداد منظور کی گئی تھی جس میں افغانستان کی امداد کے لیے منجمد فنڈز جاری کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ امریکہ کے فیصلے کے مطابق افغانستان میں انسانی امداد کے لیے 3.5 ارب ڈالر اور نائن الیون واقعے کے متاثرین کو 3.5 ارب ڈالر دیے جائیں گے۔افغانستان کے لوگوں کو اس پر تحفظات تھے اور وہ کہہ رہے تھے کہ یہ ان کا پیسہ ہے اور یہ ان کی صوابدید ہونی چاہیے کہ وہ اس رقم کو کس طرح استعمال کریں گے۔انہوں نے کہا کہ افغانستان کے لوگ مطالبہ کر رہے ہیں کہ انھیں انسانی امداد کی ضرورت ہے اور ان کے وسائل انھیں فراہم کیے جائیں۔وزیر خارجہ نے کہا کہ دنیا کہہ رہی ہے کہ اگر افغانستان کو بروقت انسانی امداد نہ دی گئی تو موجودہ بحران کی وجہ سے 2022 میں زیادہ تر آبادی غربت کی لکیر سے نیچے چلی جائے گی۔ہماری رائے یہ ہے کہ منجمد اثاثے افغانستان کے لوگوں کی ملکیت ہیں اور یہ ضروری ہے کہ یہ رقم افغانستان کے لوگوں تک پہنچے چاہے اس کی تقسیم اقوام متحدہ کی تنظیموں کے ذریعے کی جائے۔شاہ محمودقریشی نے کہا کہ افغانستان میں خوراک کی قلت کے باعث عوام بالخصوص خواتین اور بچے متاثر ہوں گے۔ہم چاہتے ہیں کہ افغانستان میں لڑکیوں کے سکول اور ہسپتال فعال ہوں۔انہوں نے کہا کہ افغانستان میں اسکول کے اساتذہ کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے رقم کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہاکہ افغانستان میں معاشی تباہی کسی کے مفاد میں نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہوئی ہے اور اس وقت ملک میں لوگوں کا مسئلہ سنگین معاشی صورتحال ہے۔