مسئلہ کشمیر حل کئے بغیر جنوبی ایشیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا ،وزیراعظم عمران خان

نیویارک:وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے اپنے ورچوئل خطاب میں کہا ہے کہ عالمی ادارے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور مسئلہ کشمیر بارے اپنی قراردادوں پر عملدرآمد کرائیں، مسئلہ کشمیر حل کئے بغیر جنوبی ایشیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا، سپر پاور بننے کے خواہاں ممالک کے درمیان اسلحہ کی نئی دوڑ شروع ہوچکی ہے، تنازعات شدت اختیار کررہے ہیں، فوجی مداخلت اور غیر قانونی انضمام کے ذریعے لوگوں کے حق خود ارادیت کو دبایا جارہا ہے، بھارت کی فسطائی حکومت نے پاکستان کے خلاف کوئی کارروائی کی تو پاکستانی قوم اس کا بھرپور جواب دے گی ، کورونا وائرس نے دنیا کو متحد ہونے کا پیغام دیا ہے، ہمیں پیغام ملتا ہے کہ دنیا میں جب تک ہر شخص محفوظ نہیں اس وقت تک دنیا میں کوئی شخص محفوظ نہیں، کورونا نے دنیا بھر میں غریب اور نادار افراد کو سخت متاثر کیا، پاکستان نے سمارٹ لاک ڈاﺅن کی پالیسی اپنائی، پاکستان میں ہم نے سخت لاک ڈاﺅن نہیں کیا، ہماری خارجہ پالیسی میں علاقائی امن و سلامتی کو اولیت حاصل ہے اور ہمارا موقف ہے کہ تمام مسائل بات چیت کے ذریعے حل ہونے چاہئیں، بین الاقوامی معاہدوں کا تمسخر اڑانے کے ساتھ ساتھ ان کو نظرانداز کیا جارہا ہے، بڑی طاقتوں کے درمیان از سر نو رقابت کے نتیجے میں ہتھیاروں کی نئی دوڑ شروع ہورہی ہے، تنازعات بڑھ رہے ہیں اور ان میں شدت آ رہی ہے، فوجی قبضے اور غیر قانونی الحاق کے ذریعے لوگوں کے حق خودارادیت کو دبایا جارہا ہے،منی لانڈرنگ میں ملوث مافیا کو بہترین وکلاءتک رسائی حاصل ہوتی ہے اور افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ مستفید کنندہ ہونے کی وجہ سے امیر ممالک اس مجرمانہ سرگرمی کا قلع قمع کرنے کے لیے سیاسی قوت ارادی سے عاری ہیں۔وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 75 ویں اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ مجھے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے ایک بار پھر خطاب کرتے ہو ئے خوشی محسوس ہورہی ہے۔ انہوں نے ولکن بوذکر کو جنرل اسمبلی کے 75 ویں اجلاس کے لیے صدر منتخب ہونے پر مبارک باد پیش کی اور کہا کہ ہم سبکدوش ہونے والے صدر تیجانی محمد باندے کی ہنر مندانہ قیادت کو بھی سراہتے ہیں، جنہوں نے کووڈ ۔19بحران کے دوران اہم کردار ادا کیا۔ ہم اس طلاطم خیز دور میں سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریز کی قیادت کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب سے میں نے اقتدار سنبھالا ہماری مسلسل کوشش رہی ہے کہ پاکستان میں بنیادی تبدیلیاں لائی جائیں، ہمارے نئے پاکستان کا تصور پیغمبر آخرالزماں محمدﷺکی قائم کردہ ریاست مدینہ کے ماڈل پر ہے۔ انصاف اور انسانی اقدار پر مبنی ایک ایسے معاشرے کاقیام جہاں حکومت کی تمام پالیسیوں کا محور اپنے شہریوں کو غربت سے نکالنا اور منصفانہ نظم و نسق قائم کرنا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ہمیں امن و استحکام کی ضرورت ہے یہی وجہ ہے کی ہماری خارجہ پالیسی کا مقصد اپنے ہمسائیوں کے ساتھ امن سے رہنا اور بات چیت کے ذریعے تنازعات حل کرنا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا 75 واں اجلاس ایک انتہائی اہم سنگ میل ہے کیونکہ یہ دنیا کا واحد ادارہ ہے جو ہمسائیوں کے ساتھ امن اور استحکام کے حصول میں ہماری مدد کر سکتا ہے، ہمارے لیے یہ ایک موقع بھی ہے کہ ہم غور کریں کہ اقوام متحدہ کی صورت میں ہم وہ وعدے پورے کرنے میں کامیاب رہے ہیں جو ہم نے مل کر اپنے لوگوں کے ساتھ کیے تھے، آج ورلڈ آرڈر کے بنیادی اہداف طاقت کا یکطرفہ عدم استعمال یا خطرہ، لوگوں کے لیے حق خود ارادیت کا حصول، مساوی خود مختاری اور ریاستوں کی علاقائی سالمیت، اندرونی معاملات میں عدم مداخلت اور بین الاقوامی تعاون کے تمام تصورات کو باقاعدہ طور پر پس پشت ڈالا جا رہا ہے، بین الاقوامی معاہدوں کا تمسخر اڑانے کے ساتھ ساتھ ان کو نظرانداز کیا جارہا ہے، بڑی طاقتوں کے درمیان از سر نو رقابت کے نتیجے میں ہتھیاروں کی نئی دوڑ شروع ہورہی ہے، تنازعات بڑھ رہے ہیں اور ان میں شدت آ رہی ہے، فوجی قبضے اور غیر قانونی الحاق کے ذریعے لوگوں کے حق خودارادیت کو دبایا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پروفیسر نوم چومسکی کے مطابق جوہری جنگ کے بڑھتے ہوئے خطرے، ماحولیاتی تبدیلی، آمرانہ حکومتوں کے بڑھتے ہوئے رحجان کی وجہ سے آج نوع انسانی کو گذشتہ صدی میں پہلی اور دوسری عالمی جنگوں سے پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑے خطرے کا سامنا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ہمیں ایسی تباہ کن صورتحال سے تحفظ کے لیے ہر صورت مل کر آگے بڑھنا ہوگا، ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ بین الاقوامی تعلقات میں ٹکراﺅ اور قوت کی بجائے بین الاقوامی قانون کے اصولوں کے مطابق تعاون لازمی ہے، ہم سب شدومد کے ساتھ کثیرالجہت لائحہ عمل کی حمایت کا اعادہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ کووڈ۔19 وبا نے نوع انسانی کی وحدانیت کو آشکار کیا ہے، ہماری اس باہم مربوط دنیا میں کوئی بھی اس وقت تک محفوظ نہیں جب تک ہر کوئی محفوظ نہ ہو، دنیا کو وبا کی روک تھام کے لیے لگائے جانے والے لاک ڈاﺅن کی وجہ سے گذشتہ صدی کے گریٹ ڈپریشن کے بعد سے بدترین کساد بازاری کا سامنا ہے، اس نے غریب ترین ممالک کے ساتھ ساتھ تمام ملکوں میں پسماندہ طبقے کو شدید متاثر کیا ہے، پاکستان میں ہم نے ابتداءہی میں یہ محسوس کر لیا تھا کہ اگر ہم نے متعدد امیر ملکوں کی طرح سخت لاک ڈاﺅن لگایا تو ہمارے ہاں وائرس کے مقابلے میں بھوک سے زیادہ لوگ موت کے منہ میں چلے جائیں گے، اس لیے ہم نے سمارٹ لاک ڈاﺅن کی پالیسی اختیار کی۔ہم نے وائرس کے ہاٹ سپاٹس پر توجہ مذکور کرتے ہوئے اپنا زرعی شعبہ فوری طور پر کھول دیا اور اس کے بعد تعمیراتی شعبہ کو کھولا جس سے زیادہ تر لوگوں کا روزگار وابستہ ہے، اسی وقت مالیاتی مشکلات کے باوجودمیری حکومت نے صحت کے شعبے، نادار اور انتہائی غیر محفوظ خاندانوں کیلئے 8 ارب ڈالررکھے اور ان کو احساس پروگرام کے ذریعے براہ راست نقد ادائیگی کی اور چھوٹے کاروباروں کو اعانت فراہم کی، اگرچہ ہمارے سمارٹ لاک ڈاﺅن کو ابتداءمیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا لیکن اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہم نہ صرف وائرس پر قابو پانے میں کامیاب ہوئے بلکہ معیشت کو مستحکم بنایا لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم لاک ڈاﺅن کے اثرات سے اپنے انتہائی کمزور ترین طبقے کو محفوظ رکھنے میں بھی کامیاب رہے ہیں، آج پاکستان کے کورونا ردعمل کاوبا پر قابو پانے کے حوالے سے کامیاب حکمت عملی کے طور پر حوالہ دیا جاتا ہے تاہم اب بھی ہم مشکل سے باہر نہیں نکلے ہیں اور اسی طرح کوئی بھی دوسرا ملک بھی اس مشکل سے آزاد نہیں ہوا ہے، یہ ابتداءہی سے واضح تھا کہ ترقی پذیر ممالک کو کورونا بحران سے نمٹنے اور بحالی کے لیے مالی مدد کی ضرورت ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ترقی پذیر مملک کے لیے قرضوں میں سہولت مالی آسودگی فراہم کرنے کا بہترین لائحہ عمل ہے، اس لیے میں نے اپریل کے آغاز میں ہی قرضوں میں سہولت کی خاطر عالمی اقدام کے لیے آواز اٹھائی تھی، ہم جی۔20 کی طرف سے قرضوںکی معطلی کے اقدام اور آئی ایم ایف، عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور اقوام متحدہ کے اداروں کی طرف سے فوری مالی امداد کے اقدام کو سراہتے ہیں تاہم یہ کافی نہیں ہے، آئی ایم ایف کے اندازے کے مطابق ترقی پذیر ممالک کو بحران سے نمٹنے اور بحالی کے لیے 2.5 ٹریلین ڈالر کی ضرورت ہوگی، قرضوں کی سرکاری طور پر معطلی کو توسیع دینے اور ان کے دائرہ کار کو بڑھانے کی ضرورت ہوگی، اس کے علاوہ قرضوں میں اضافی سہولتی اقدامات بھی کرنا ہوں گے، کثیرالجہت ترقیاتی بینکوں کو خاطر خواہ مالی امداد کی فراہمی یقینی بنانی چاہیے، امیر ممالک نے خود وباءسے نمٹنے اور بحالی کے لیے10 ٹریلین ڈالر مہیا کیے ہیں، انہیں ترقی پذیر ملکوں کے نئے ایس ڈی آر کے لیے کم سے کم 500 ارب ڈالر کی فراہمی کے لیے مدد کرنی چاہیے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ میں نے گذشتہ سال جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب میں ٹیکسوں سے بچنے کے لیے ترقی پذیر ملکوں سے امیر ممالک اور آف شور ٹیکس پناہ گاہوں کو رقوم کی غیرقانونی منتقلی سے ہونے والے ناقابل تلافی نقصان کو اجاگر کیا تھا، اس اقدام سے ترقی پذیر ممالک میں غربت بڑھی ہے، جو رقم انسانی ترقی کے لیے استعمال کی جاسکتی ہے وہ بد عنوان اشرافیہ ہڑپ کر جاتی ہے۔ زرمبادلہ کی کمی کے نتیجے میں کرنسی کی قیمت میںکمی واقع ہو جاتی ہے اور نتیجتاًغربت اور افراط زر جنم لیتے ہیں، پیچیدہ طریقہ کار کے باعث ان چوری شدہ وسائل کی واپسی کے لیے جستجو کی کامیابی تقریباً ناممکن ہے جب کہ منی لانڈرنگ میں ملوث مافیا کو بہترین وکلاءتک رسائی حاصل ہوتی ہے اور افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ مستفید کنندہ ہونے کی وجہ سے امیر ممالک اس مجرمانہ سرگرمی کا قلع قمع کرنے کے لیے سیاسی قوت ارادی سے عاری ہیں۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اگر اس عمل کا راستہ نہ روکا گیا تو امیر اور غریب اقوام کے درمیان عدم مساوات بڑھتی رہے گی اور بالآخر آج کی نقل مکانی کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے مسئلے سے زیادہ بڑا عالمی بحران پیدا ہو جائے گا، امیر ممالک جب منی لانڈرنگ کرنے والوں کی لوٹی ہوئی دولت کے لیے محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتے ہیں تو وہ انسانی حقوق اور انصاف پر قائم نہیں رہ سکتے، منی لانڈرنگ اور منی لانڈرنگ کی مالی معاونت کرنے والوں کے سدباب کے لیے فعال حکومتیں موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں اس اسمبلی سے مطالبہ کرتا ہوں کہ رقم کی غیر قانونی منتقلی اور لوٹی ہوئی دولت کی فوری واپسی کو یقینی بنانے کے لیے عالمی لائحہ عمل کی تیاری کی کوششوں میں آگے آئے اس بات کو سمجھنا اہم ہے کہ ترقی پذیر ملکوں کو امیر ملکوں سے ملنے والی امداد ہماری بدعنوان اشرافیہ کی طرف سے رقم کی بڑے پیمانے پر بیرون ملک منتقلی کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ انہوں نے ایک بار پھر ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے نوع انسانی کو ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے درپیش خطرے کے بارے میں اپنے خیالات کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ آسٹریلیا، سائبیریا، کیلی فورنیا حتیٰ کہ برازیل میں لگنے والی غیر معمولی آگ، دنیا کے مختلف حصوں میں آنے والے غیر معمولی سیلاب اور قطب شمالی میں درجہ حرارت میں ریکارڈ اضافہ کے پیش نظر ہمیں اپنی مستقبل کی نسلوں کے بارے میں فکرمند ہونا چاہیے۔ پیرس معاہدے میں ہونے والے وعدوں خاص طور پر 100 ارب ڈالر جمع کرنے کے ہدف کوہر صورت عملی جامہ پہنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ کاربن کے اخراج کے حوالے سے پاکستان کا بہت کم حصہ ہے لیکن اس کا شمارماحولیاتی تبدیلی سے شدید متاثرہ ملکوں میں ہوتا ہے، اس کے باوجود ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ پہل کریں کیونکہ ہم سمجھتے ہیںکہ ماحولیاتی تبدیلی کے مسئلے کو حل کرنا عالمی ذمہ داری ہے، ہم نے ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے میں اپنے حصہ کے طور پر اگلے تین سال میں ماحولیاتی تبدیلی کے لیے 10 ارب درخت لگانے کا انتہائی پرعزم پروگرام شروع کیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ وباءنوع انسانی کو قریب لانے کا ایک موقع تھا، بدقسمتی سے اس نے قوم پرستی کو ہوا دی، عالمی تنازعات میں اضافہ ہوا اور متعدد مقامات پر کمزور اقلیتوں کے خلاف نسلی اور مذہبی بنیادوں پر نفرت اور تشدد کے واقعات بڑھے ہیں، ان رحجانات نے اسلامو فوبیا کوبھی بڑھکایا ہے اور بہت سے ملکوں میں مسلمانوں کو بلاخوف و خطر نشانہ بنایا جا رہا ہے، ہماری زیارتوں کو تباہ کیا جا رہا ہے اور ہمارے پیغمبر خاتم النبیین حضرت محمدﷺ کی توہین کی جارہی ہے، قرآن پاک کو جلایا گیا ہے اور یہ سب اظہار رائے کی آزادی کے نام پر ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چارلی ہیبڈو کی طرف سے توہین آمیز خاکوں کی دوبارہ اشاعت سمیت یورپ میں ہونے والے واقعات حالیہ مثالیں ہیں، ہم سختی سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جان بوجھ کر اشتعال انگیزی اور نفرت و تشدد کی ترغیب دینے کو عالمی سطح پر غیرقانونی قرار دیا جائے، اس اسمبلی کو چاہیے کہ اسلاموفوبیا کے خاتمے کے لیے عالمی دن کا اعلان کرے اور اس ناسور کے خلاف متحد ہوں جو انسانیت کی تقسیم کا باعث ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج دنیا میں بھارت واحد ایسا ملک ہے جہاں ریاست اسلاموفوبیا کی سرپرستی کر رہی ہے، اس کے پیچھے آر ایس ایس کا نظریہ کارفرما ہے جو بدقسمتی سے آج بھارت پر مسلط ہے، یہ انتہا پسندانہ نظریہ 1920 کی دہائی میں منظرعام پر آیا تھا۔ آر ایس ایس کے بانی نازیوں سے متاثر تھے اور انہوں نے نسلی پارسائی اور برتری کے نظریات کو اپنایا۔ جیسے نازیوں کی نفرت کا شکار یہودی تھے، آر ایس ایس کا نشانہ مسلمان ہیں اور کسی حد تک عیسائی بھی اس کا شکار ہو رہے ہیں، آر ایس ایس کا ماننا ہے کہ بھارت صرف ہندوﺅں کے لیے ہے اور دیگر بھارتی برابر کے شہری نہیں ہیں، بھارت کے 20 کروڑ مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کو مختلف حربوں کے ذریعے ان کا مکمل خاتمہ کرکے گاندھی اور نہرو کے سیکولرازم کے نظریے کے بر عکس ہندو ریاست کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جارہی ہے، 1992 میں آر ایس ایس نے بابری مسجد کو تباہ کیا، 2002 میں گجرات میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ مودی کی قیادت میں دو ہزارمسلمانوں کا قتل عام کیا گیا اور 2007 میں آر ایس ایس کے غنڈوں نے سمجھوتہ ایکسپریس ٹرین پر سوار 50 سے زائد مسلمانوںکو زندہ جلا دیا، آسام میں تقریباً دو کروڑ مسلمانوں کو امتیازی قوانین کے ذریعے جبراً قومیت سے محرومی کے خطرے کا سامنا ہے.