دنیا کی مقبول ترین کارٹون،ٹام اینڈ جیری80سال کے ہوگئے

لندن: بچوں اور بڑوں میں یکساں طور پر مقبول کارٹون ”ٹام اینڈ جیری“80سال کے ہوگئے ہیں اکیڈمی ایوارڈ جیتنے سے لے کر سرد جنگ کے دوران خفیہ پروڈکشن تک دنیا کے مقبول ترین کارٹون”ٹام اینڈ جیری“ اس ہفتے 80 سال کے ہو گئے ہیں. تخلیق کاروں کو ٹام اینڈ جیری کی جوڑی بنانے کا خیال مایوسی کے دور میں آیا ایم جی ایم کے اینیمیشن ڈیپارٹمنٹ میں بِل حانا اور جو باربرا نے ”پورکی پِگ“ اور ’مکی ماﺅس‘ جیسے کارٹون بنانے والے سٹوڈیو کی طرح کامیابی حاصل کرنے کے لیے تگ و دو کی.ایک جیسے کرداروں سے اکتاہٹ کے بعد بل اور جو نے جن دونوں کی عمر اس وقت 30 سے کم تھی نے نئے کرداروں کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا باربرا نے کہا کہ انہیں بلی اور چوہے کے جھگڑے اور ایک دوسرے کا تعاقب کرتے کارٹون کا سادہ سا تصور پسند آیا تھا حالانکہ اس سے پہلے بھی ایسا ان گنت بار ہو چکا تھا.ان کا پہلا کارٹون”پس گیٹس دی بوٹس“ 1940 میں ریلیز ہوا اور بہت کامیاب رہا تاہم اینیمیٹرز کو کریڈِٹ نہیں دیا گیا مینجرز نے ابتدا میں ان سے کہا کہ وہ اپنے تمام وسائل ایک ہی جگہ پر نہ لگائیں لیکن ان کے ذہن اس وقت تبدیل ہوئے جب ٹیکساس سے تعلق رکھنے والی ایک بااثر صنعتکار کی طرف سے ایک خط موصول ہوا جس میں یہ پوچھا گیا کہ وہ چوہے بلی کے اس بہترین کارٹون کا اگلا حصہ کب دیکھ سکیں گی.جاسپر اور جِنکس کے نام سے شروع ہونے والا یہ کارٹون’ ’ٹام اینڈ جیری“ بن گیا باربرا کے مطابق کرداروں کے نہ بولنے کے بارے میں ویسے کوئی گفتگو نہیں ہوئی تھی لیکن چارلی چیپلن کی خاموش فلموں کے زیر اثر پروان چڑھنے کے بعد تخلیق کاروں کو معلوم تھا کہ یہ کارٹون مکالمے کے بغیر بھی مضاحیہ ہو سکتے ہیں سکاٹ بریڈلے کے تیار کردہ میوزک نے ایکشن میں جان ڈال دی اور ٹام کی ٹریڈ مارک انسانوں کی طرح چیخنے کی آواز خود حانا نے ریکارڈ کروائی تھی.برطانوی نشریاتی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق اگلی دو دہائیوں کا زیادہ تر وقت اسی کام میں صرف ہوا حانا اور باربیرا نے ان کارٹونز کی 100 سے زیادہ شارٹس کی پروڈکشن کی نگرانی کی ہر ایک قسط کو بنانے میں ہفتوں کا وقت لگا اور اس کی لاگت 50ہزار ڈالزر تک آئی لہذا ہر سال صرف چند قسطیں ہی تیار کی جا سکتی تھیں. اس دور میں بنائے گئے ان ٹام اینڈ جیری کارٹونز کو عمومی طور پر دنیا کے بہترین کارٹونز سمجھا جاتا ہے ہاتھوں سے بنائی گئی متحرک تصاویر اور تفصیلی پس منظر کی مدد سے ان کارٹونز نے سات اکیڈمی ایوارڈز جیتے اور کئی ہالی ووڈ فیچر فلموں میں بھی اپنی جگہ بنائی.جیری بیک کارٹونز پر کام کرنے والے ایک تاریخ دان ہیں اور اس صنعت میں مختلف کرداروں کے ساتھ کام کر چکے ہیں وہ کہتے ہیں میں شرط لگاتا ہوں کہ جب آپ نے انھیں بچپن میں دیکھا تھا یا یہاں تک کہ اگر آپ انھیں اب بھی دیکھیں گے تو آپ یقین سے یہ نہیں طے کر پائیں گے کہ وہ کب بنے تھے.وہ کہتے ہیں کہ اس میں کچھ بات اینی میشن کی بھی ہے یہ ہمیشہ رہنے والی ہے اور کبھی ماند نہیں پڑیں گی انہوں نے کہا کہ نقش نگاری کا اپنا مقام ہے جیسے آپ کوئی پینٹگ دیکھنے کے لیے جائیں ہم جانتے ہیں کہ یہ اٹھارویں اور انیسویں صدی میں بنی ہے لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ آج بھی آپ سے باتیں کرتی ہے.ان کارٹونز کی بھی یہی بات ہے ہم نے وقت کے ساتھ سیکھا ہے کہ یہ واقعی ایک عظیم فن ہے ڈسپوزایبل یا پھینک دینے والی تفریح نہیں .جب 1950 کی دہائی کے وسط میں پروڈیوسر فریڈ کوئمبی ریٹائر ہوئے تو حانا اور باربیرا نے ایم جی ایم کے کارٹون ڈیپارٹمنٹ کو سنبھال لیا لیکن ساتھ ہی بجٹ میں کتوٹی ہونے لگی پروڈکشن مالکان ٹی وی کی بڑھتی مقبولیت سے خوفزدہ تھے اور انھوں نے محسوس کیا کہ وہ اس کارٹون کی پرانی قسطوں کو دوبارہ جاری کر کے بھی اتنے ہی ہیسے کما سکتے ہیں جتنے وہ نئی اقساط تیار کر کے کما سکتے ہیں.1951 میں جب ان کا ڈیپارٹمنٹ بند ہو گیا تو حانا اور باربیرا نے اپنی خود کی ایک پروڈکشن کمپنی کا آغاز کیا مگر اس کے چند برس کے بعد ہی ایم جی ایم پروڈکشن کمپنی نے ٹام اینڈ جیری کارٹون کو اس کے اصل تخلیق کاروں کے بنا دوبارہ شروع کرنے کا ارادہ کیا.