دہشتگردی اور انتہاپسندی کے سدباب کیلئے اقدامات کئے جائیں

اسلام آباد:ملک بھر سے جید اور مستند علما کرام اور مشائخ عظام نے سویڈن میں دائیں بازو کے انتہاپسند کی طرف سے قرآن پاک کی بے حرمتی کے گھنائونے فعل کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ آزادی اظہار رائے کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کی آزادی نہیں دی جا سکتی۔ انہوں نے ملک دشمن قوتوں کو کچلنے کیلئے لائحہ عمل پر عملدرآمد جاری رکھنے، لسانی، علاقائی، مذہبی اور مسلکی شناختوں کے نام پر مصروف عمل مسلح گروہوں کے خلاف بھرپور کارروائی کرنے ، طاقت کے بل پر اپنے نظریات کو دوسروں پر مسلط کرنے کے رویوں کے خاتمہ ، دہشت گردی اور انتہاپسندی کے رجحان کے سدباب اور نام نہاد جہاد کے نام پر بھتہ خوری کی بیخ کنی کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ضرورت پر زور دیا۔ان خیالات کا اظہار بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں پیر کو ’’پیغام پاکستان، میثاق وحدت‘‘ کے موضوع پر کانفرنس میں کیا گیا جس میں ملک بھر سے جید اور مستند علما کرام اور مشائخ عظام نے شرکت کی ، دینی قیادت نے موجودہ حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے قومی وحدت اور وطن عزیز کی سالمیت کو دہشت گردی، انتہا پسندی اور نفرت انگیزی جیسے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے قومی بیانیہ کی ضرورت پر زور دیا۔کانفرنس کے اختتام پر جاری کرہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان بھر کے تمام ماسلک کے نمائندہ علماء و مشائخ کا یہ اجتماع سمجھتا ہے کہ ”پیغام پاکستان” جو کہ 16 جنوری 2018ء کو ایوان صدر سے جوقومی بیانیہ جاری ہوا تھا وہ قرآن و سنت، دستور پاکستان اور پاکستان قوم کی اجتماعی سوچ کی عکاسی کرتاہے، یہ بیانیہ ہمارے مسائل کا تجزیہ کرتے ہوئے ایسا عملی لائحہ عمل پیش کرتا ہے جس پر عمل کرنے سے نہ صرف قیام پاکستان کے مقاصد حاصل ہو سکتے ہیں بلکہ پا کستان میں ایک ایسا مضبوط، متحد اسلامی اور جمہوری معاشرہ قیام کیا جا سکتا ہے جو اسلامی تہذیب و تمدن کی روحانیت، عدل و انصاف، مساوات، اخوت، باہمی رواداری و برداشت اور حقوق و فرائض میں توازن جیسی خصوصیت سے مزین ہو۔اس بیانیہ پر عمل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ اسے قومی اسمبلی اور سینیٹ سے پاک کروایا جائے اور پورے ملک میں بطور پالیسی نافذ کیا جائے۔علماء کا یہ اجتماع سمجھتا ہے کہ کسی بھی نام نہاد دلیل کی بناء پر اسلامی جمہوری پاکستان کی اسلامی حیثیت اور اسلامی اساس کا انکار درست نہیں۔ لہٰذا اس کی بناء پر ملک یا اس کی حکومت، فوج یا دوسری سیکورٹی ایجنسیوں کے اہلکاروں کو غیر مسلم قرار دینے اوران کیخلاف مسلح کارروائی شریعت وقانون کی خلاف ورزی ہے اور ایسا عمل اسلامی تعلیمات کی رو سے بغاوت کا سنگین جرم قرار پاتا ہے۔علماء کرام اور مشائخ عظام کا یہ نمائندہ اجتماع سمجھتا ہے کہ نفاذ شریعت کے نام پرطاقت کا استعمال، ریاست کیخلاف مسلح محاذ آرائی، تخریب و فساد اور دہشت گردی کی تمام صورتیں، جن کا ہمارے ملک کو سامنا رہا ہے، قطعی حرام ہیں، شریعت کی رو سے ممنوع ہیں اور بغاوت کے زمرے میں آتی ہیں۔ یہ ریاست، ملک و قوم اوروطن عزیز کو کمزور کرنے کا سبب بن رہی ہیں اوران کا تمام تر فائدہ اسلام دشمن اور ملک دشمن قوتوں مو پہنچ رہاہے، لہٰذا ریاست نے ان کو کچلنے کیلئے جو آپریشن کئے تھے اور جوقومی اتفاق رائے سے جو لائحہ عمل تشکیل دیا تھا وہ درست ہے اور اس پر عملدرآمد جاری رکھنا چاہئے مزید یہ کہ اگر دہشت گردی ختم کرنے کیلئے مزید اس قسم کے اقدامات کی ضرورت ہو تو وہ بھی کئے جائیں۔دہشت گردی کیخلاف جنگ میں علماء کرام اور مشائخ عظام سمیت زندگی کے تمام شعبوں کے طبقات ریاست، مسلح افواج، پولیس، امن و امان قائم کرنے والے تمام اداروں اور عوام الناس کے ساتھ کھڑے ہیں اور پوری قوم قومی بقاء کی اس جنگ میں افواج پاکستان اور پاکستان کے دیگرسیکورٹی اداروں کے ساتھ مکمل اور غیر مشروط تعاون کا اعلان کرتی ہے۔یہ اجتماع پیغام پاکستان کی تجدید کرتے ہوئے یہ عہد دہراتا ہے کہ لسانی، علاقائی، مذہبی اور مسلکی شناختوں کے نام پر جو مسلح گروہ ریاست کیخلاف مصروف عمل ہیں، یہ سب شرعی احکامات کی مخالفت کر رہے ہیں، لہٰذا ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ ان تمام گروہوں کیخلاف ایسی بھرپور کارروائی کی جائے جس کے بعد یہ لوگ پھر سے سر نہ اٹھا سکیں نیز ان گروہوں کے سدباب کیلئے فوری، دیرپا، پائیدار اور سنجیدہ کوششیں کی جانی چاہئیں۔اعلامیہ میں کہا گیا کہ علماء کرام اور مشائخ عظام کا یہ نمائندہ اجتماع یہ سمجھتا ہے کہ طاقت کے بل پر اپنے نظریات کو دوسروں پر مسلط کرنے کی روش شریعت کے احکام کی مخالفت اور فساد فی الارض ہے، نیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور و قانون کی رو سے ایک سنگین جرم ہے لہٰذا اس قسم کے رویوں کا ہر سطح پر مقابلہ کیا جانا چاہئے اوران کا سدباب کرنے کیلئے تزویراتی، اقدامی، دفاعی، سماجی اور اقتصادی اقدامات کئے جانے چاہئیں۔علمائے مشائخ کا یہ اجتماع سمجھتا ہے کہ دہشت گرد اورفرقہ پرست تنظیموں کی طرف سے نام نہاد جہاد کے نام پر بھتہ خوری شریعت و قانون کی شدید خلاف ورزی اور سنگین جرم ہے جس سے ہمارے معاشرے میں کاروباری سرگرمی متاثر ہو رہی ہیں اس لئے امن و امان قائم کرنے و الے اداروں کو ان جرائم کیخلاف سنجیدہ کوششیں کرنی چاہئیں۔وطن عزیز میں قائم تمام درسگاہوں کا بنیادی مقصد تعلیم و تربیت ہے، ملک کی تمام سرکاری و نجی درسگاہوں کا کسی نوعیت کی عسکریت ,نفرت انگیزی انتہا پسندی,تشدد پسندی اور علاقائیت پرستی سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے پیغام پاکستان جاری کرنے کے بعد اس ضمن میں نمایاں بہتری آئی ہے اور اب تعلیمی اداروں میں نسبتاً امن و امان کی صورتحال بہتر ہے یہ اجتماع سفارش کرتا ہے کہ اس قسم کے مضر اثرات سے نوجوانوں کو بچانے کیلئے پیغام پاکستان کی روشنی میں بھرپور کوششیں جاری رکھی جانی چاہئیں۔دہشت گردی اور نفرت انگیزی کا فکری رجحان ہماری معاشرتی امن کا دشمن ہے۔ اس رجحان کیخلاف فکری جدوجہد تمام اداروں اور افراد کی قومی ذمہ داری ہے۔اسلامی تعلیمات اور ملکی قانون کے مطابق کسی بھی شخص، مسلک یا ادارے کیخلاف اہانت، نفرت انگیزی اور اتہام بازی پر مبنی تحریر و تقریر غیر اسلامی اور غیر قانونی عمل ہے اس جرم کے ارتکاب کرنے والوں کیخلاف کارروائی کرنا ضروری ہے۔مسلمانوں میں مسالک و مکاتب فکر قرون اولی سے چلے آ رہے ہیں اور آج بھی موجود ہیں ان میں ذدلیل و استدلال کی بنیاد پر فقہی اور نظریاتی ابحاث ہمارے دینی اور اسلامی علمی سرمائے کا حصہ ہیں اور رہی گے، لیکن یہ تعلیم و تحقیق کے موضوعات ہیں ان کو عوام الناس میں انتشار اور تفرقہ بازی کیلئے استعمال کرنا دینی تعلیمات کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔