دنیا جان چکی کسی مذہب کی توہین آزادی اظہار نہیں، طاہر محمود اشرفی

فیصل آباد :نمائندہ خصوصی وزیراعظم برائے بین المذاہب ہم آہنگی و مشرق وسطیٰ و چیئرمین پاکستان علما کونسل و متحدہ علما بورڈ حافظ محمد طاہر محمود اشرفی نے کہا کہ دنیا جان چکی ہے کہ کسی مذہب کی توہین آزادی اظہار نہیں ، یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ آپ ؐ کی شان میں گستاخی سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں کیونکہ آپؐ مسلمانوں کیلئے ان کی جان و مال سے بھی بڑھ کر عزیز ہیں ۔کینال پارک فیصل آباد میں علما و مشائخ کنونشن سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ ناموس رسالتؐ پر پوری دنیا ہم آواز ہے جبکہ موجودہ تناظر میں روسی صدر ولادی میر پوٹن کا دلیرانہ بیان ہوا کا خوشگوار جھونکا ہے اور روسی صدر بھی ناموس رسالتؐ پر ہمارے وزیراعظم عمران خان کے مؤقف کی تائید کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ دین کی اصل تصویر سامنے لانا علما کی ذمہ داری ہے تاکہ آئندہ سیالکوٹ جیسے واقعات کا دوبارہ اعادہ نہ ہوسکے کیونکہ اسلام میں اس جیسے واقعات کی کوئی گنجائش نہیں نیزکسی کی املاک کو جلاناشریعت کے خلاف ہے اور سانحہ سیالکوٹ کے بعد خوف کی جو فضا پائی جارہی ہے ،علما کا فرض ہے کہ وہ اسے دور کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔انہوں نے کہا کہ معاشرے میں عدم برداشت کا رویہ پروان چڑھ رہا ہے جسے تبدیل کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے لیکن یہ کام صرف علما کا ہی نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں اور سوسائٹی کے دیگر طبقات کا بھی فرض ہے کہ وہ اس سلسلہ میں اپنامثبت کردار ادا کرے۔انہوں نے کہا کہ آج عالم اقوام کو بھی اس بات کا احساس ہوگیا ہے کہ کسی کی بھی توہین مذہب درست اقدام نہیں اسلئے آج دنیا بھر سے عالمی قانون کیلئے آوازیں اٹھ رہی ہیں لیکن ہمارے ملک میں پہلے سے ہی قانون موجود ہے اسلئے لوگوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ اگر کوئی توہین کرے گا تو اسے قانون کا سامنا کرنا پڑے گااسلئے کوئی بھی قانون کو ہاتھ میں نہ لے۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ ہفتے او آئی سی کے وزرائے خارجہ کے اسلام آباد میں منعقد ہونیوالے غیر معمولی اجلاس میں دنیا بھر کے اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ نے شرکت کی جس میں افغان مسئلے پر بڑی پیشرفت ہوئی ہے اور سعودی عرب نے اس ضمن میں بڑی امداد کا اعلان کیا ہے جبکہ باقی اسلامی ممالک نے بھی اس حوالے سے اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا ہے۔انہوں نے کہا کہ افغانستان کے مسئلہ پر پوری دنیا ہمارے مؤقف کو تسلیم کررہی ہے۔حافظ طاہر محمود اشرفی نے کہا کہ رات کو سات آٹھ بجے سے لیکر دس گیارہ بجے تک ٹی وی ٹاک شوز میں جو کچھ کہا جا تا ہے وہ افسوسناک ہے،ان میں کہتے ہیں کہ عمران خان کے لوگ یہ بات کرتے ہیں وہ بات کرتے ہیں مگر دوسری جماعتوں کے لوگ بھی اس سے بڑھ کر کر جاتے ہیں جن سے عوام میں یہ تاثر جاتا ہے کہ جو لوگ خود کو جمہوریت کے چیمپئن قرار دیتے ہیں سب سے زیادہ غیر جمہوری رویہ انہیں کا ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہر سیاستدان نے سیاست کے نام پر دین کا نعرہ لگایااوردینی جماعتیں مرکز اور صوبوں میں اقتدار میں بھی رہی ہیں لیکن یہی جماعتیں جب سیاسی میدان میں شکست کھاتی ہیں تو نتائج کو ماننے سے انکار کردیتی ہیں اور جب کسی وجہ سے کامیاب ہوجاتی ہیں تو یہ مذہبی طاقتوں کی جیت قرار دینے لگتی ہیں لہٰذا دین کو اس طرح انتخابی سیاست میں استعمال کرنے کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ یہی لوگ کہتے ہیں کہ تقریروں سے کیا ہوتا ہے اور ریاست مدینہ کی بات پر عمران خان کا مذاق اڑایا جا تا ہے لیکن ناموس رسالتؐ اور دین اسلام کی بات عمران کریں گے تو ہم ان کا ہر طرح سے بھرپور ساتھ دیں گے۔انہوں نے کہا کہ عمران خان جو کام کرتے ہیں اپوزیشن جماعتوں والے اس کا کریڈٹ لینے کیلئے جھوٹی سچی کہانیاں گھڑنا شروع کردیتے ہیں لیکن وہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا گزشتہ ہفتے اسلام آبادمیں ہونیوالی او آئی سی وزرائے خارجہ کی کانفرنس بھی اپوزیشن کے دور میں طلب کی گئی تھی اسلئے اگر کوئی اچھا کام ہورہا ہے تو اس کا کریڈٹ بھی حکومت کو ملنا چاہیے۔