افغانستان کو انسانی اور معاشی تباہی سے بچانے کیلئے اس کے منجمد اثا ثے بحال کئے جائیں، منیر اکرم
اقوام متحدہ:پاکستان نے عالمی برادری کی توجہ افغانستان کو درپیش انسانی اور معاشی بحران کی طرف دلاتے ہوئے زور دیا ہے کہ جنگ سے متاثرہ ملک کو اس صورتحال سےنکلنے کے قابل بنانے کے لیے بلاجواز منجمد کیے گئے اس کے اثاثوں کو بحال کیا جائے۔اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے گزشتہ روزافغانستان کی صورتحال پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں اس بات کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت 2کروڑ 80لاکھ افغان شہری شدید غذائی عدم استحکام کا سامنا کر رہے ہیں لہذا معیشت کی بحالی ، تنخواہوں کی ادائیگی ، چھوٹے کاروباروں اور بینکاری کے نظام کی بحالی کے لیے نقد رقم کی ضرورت ہے ۔انہوں نے خبردار کیا کہ افغانستان میں ایک بڑے انسانی بحران اور معاشی تباہی کے نتائج ہولناک ہوں گے ، بڑے پیمانے پر انسانی مسائل، مزید لاکھوں افغان مہاجرین کا اخراج، افراتفری کا امکان ، مزید تصادم اور داعش اور دیگر دہشت گرد گروہوں کو تقویت ملے گی۔انہوں نے کہا کہ جب لاکھوں افغان مہاجرین ہماری سرحدوں پر آنا شروع ہو جائیں گے، تو ہم جو پہلے ہی 40 لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہے ہیں، مزیدافغان مہاجرین کو رکھنے کے متحمل نہیں ہو سکیں گے انہیں کہیں دوسری جگہ جانا پڑے گا اور بین الاقوامی برادری کو ایسے نتائج سے گریز کرنا ہو گا۔ پاکستانی مندوب منیر اکرم نے کہا کہ افغانستان میں سلامتی کی صورتحال میں بہت حد تک بہتری آئی ہے۔افغانستان کی عبوری حکومت نے افغان عوام کو امدادی کارکنوں بشمول خواتین امدادی کارکنوں کے ذریعے براہ راست امداد کی فراہمی کی اجازت اور سہولت فراہم کی ہے اور افغانستان ہمسایہ ممالک سمیت بین الاقوامی برادری کے ساتھ روابط کا مثبت جواب دے رہا ہے۔انہوں نے خبردار کیا کہ بعض عناصراب بھی افغانستان کو غیرمستحکم کرنے کی سازشوں میں مصروف ہیں جنہیں بے نقاب کیا جانا چاہیے۔پاکستانی مندوب نے اجلاس میں افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی کی حکومت کے نامزد کردہ سابق افغان سفیر غلام اسحق نئی کی شرکت پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ سلامتی کونسل کو یک فریقی بحث کے بجائے ان لوگوں کی بات سننے سے فائدہ ہو گا جو دراصل کابل میں حکومت کر رہے ہیں۔انہوں نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، اقوام متحدہ، بین الاقوامی تنظیموں جیسے ورلڈ فوڈ پروگرام(ڈبلیو ایف پی)، او سی ایچ اے، یو این ڈی پی، یونیسف، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن(ڈبلیو ایچ او)، فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن(ایف اے او) اور دیگر تنظیموں کی جانب سے افغان عوام کی مدد کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ انسانی اور معاشی تباہی سے بچنے کے لیے مزید مدد کی ضرورت ہے۔انہوں نے زور دیا کہ دو طرفہ اور سلامتی کونسل کی پابندیوں کی وجہ سے انسانی ہمدردی کی تنظیموں کو بھی عملی چیلنجز کا سامنا ہے لہذا انسانی امداد کو غیرمشروط ہونا چاہیے اور ہمیں امید ہے کہ مناسب فیصلے کیے جائیں گے تاکہ اقوام متحدہ اور دیگر تنظیموں کو ان کے عملی مسائل پر قابو پانے کے قابل بنایا جا سکے جو افغان عوام کے لیے انتہائی ضروری امداد میں رکاوٹ ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان کے لیے 3کروڑ ڈالر امداد کے ساتھ افغانستان کی ہرممکن مدد کرہا ہےاور گندم، چاول، ادویات اور ضروری اشیاء وہاں بھجوائی جارہی ہیں اور یہی نہیں ہم نےافغان اشیا ءکی درآمد پر ڈیوٹی ختم کر دی ہے۔ ہم ٹرانزٹ ٹریڈ میں سہولت فراہم کر رہے ہیں؛ ضروری ادویات فراہم کر رہے ہیں، افغان ہسپتالوں کی تجدید کر رہے ہیں جبکہ پاکستان نے ورلڈ فوڈ پروگرام کو اسلام آباد سے کابل 10ہزار ٹن گندم بھجوانے کے لیے سہولت فراہم کی ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں افغانستان کی صورتحال پر ہونے والے توسیعی ٹرائیکا پلس اجلاس کے اراکین نے توقع کی کہ افغانستان میں شمولیت کے عمل ، انسانی حقوق ، لڑکیوں کی تعلیم اور خواتین کی شرکت،سابق سرکاری اہلکاروں کے خلاف انتقامی کارروائیوں کی روک تھام،افغانستان میں دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی کا خاتمہ اور منشیات کی سمگلنگ پر قابو پایا جائے۔ٹرائیکا پلس اجلاس میں افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے کہا کہ کابل میں حکام نے انتقامی کارروائیوں نہ کرنے اور اپنے سابق مخالفین اور کارکنوں کے لیے معافی کا اعلان کیا ہے جو اب کابل میں حکومتی ڈھانچے اور وزارتوں میں شامل ہیں۔انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ افغانستان کی سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں کی جائے گی، داعش خراسان کے خلاف موثر اقدامات کیے جائیں گے۔ انہوں نے افغانستان کے اثاثوں کی بحالی کا بھی مطالبہ کیا۔اقوام متحدہ میں پاکستان کے مندوب منیر اکرم نے کہا کہ 40سال بعد افغانستان میں امن کے قیام اور دہشت گردی کے خاتمے کا موقع ملا ہے اور اس موقع کو انا ، خود پسندی انتقام یا مایوسی کی نظر نہیں کیا جانا چاہیے اور نہ ہی اس موقع کو گنوانا چاہیے۔