بابری مسجد کیس،بھارتی سپریم کورٹ کا مسلمانوں کو متبادل جگہ فراہم کرنے کا حکم

بابری مسجد

نئی دہلی: بھارتی سپریم کورٹ نے تاریخی بابری مسجد کی شہادت کے کیس کا فیصلے میں مسلمانوں کو مسجد کے لیے متبادل جگہ فراہم کرنے کا حکم دیا ہے. سپریم کورٹ نے حکم میں کہا کہ ایودھیا میں متنازع زمین پر رام مندر تعمیر کیا جائے گا جبکہ مسلمانوں کو ایودھیا میں ہی مسجد کی تعمیر کے لیے 5 ایکڑ زمین فراہم کی جائے.عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے تحت ایودھیا میں بابری مسجد کی زمین رام جنم بھومی مندر کو دی جائے گی اور مرکزی حکومت کو 3 ماہ میں ایودھیا ایکٹ 1993 کے تحت بورڈ آف ٹرسٹیز تشکیل دینے کی ہدایت کی گئی.مندر مسجد کے اس پرانے تنازعے کا فیصلہ سپریم کورٹ کاپانچ رکنی آئینی بنچ کر رہا ہے بنچ کی صدارت چیف جسٹس رنجن گوگئی کر رہے ہیں باقی چار ججوں میں جسٹس شرد اردون بوبڈے، جسٹس اشوک بھوشن، جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور جسٹس ایس عبدالنظیر شامل ہیں.فیصلہ آنے سے سے قبل ایودھیا اور پورے ملک میں سکیورٹی سخت کر دی گئی ایودھیا میں متنازع مقام سمیت اہم عبادت گاہوں کی حفاظت کے لیے سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے کئی مقامات پر انسداد دہشت گردی دستے تعینات کر دیے گئے ہیں. ایودھیا میں دفعہ 144 کے تحت حکم امتناعی نافذ کیا گیا ہے ضلع انتظامیہ نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر اشتعال انگیز پیغامات سے دور رہیں.سپریم کورٹ نے اس کیس کی سماعت 16 اکتوبر 2019 کو مکمل کر لی تھی مغل بادشاہ ظہیرالدین محمد بابر کے نام سے منسوب بابری مسجد ایودھیا میں 1528 میں ایک مقامی فوج کے کمانڈر نے بنوائی تھی. بہت سے ہندوﺅں اور ہندو مذہبی رہنماﺅں کا دعویٰ ہے کہ کہ بابر نے یہ مسجد ایودھیا میں ان کے بھگوان رام کے پہلے سے قائم ایک مندر کو توڑ کر اس کی جگہ تعمیر کروائی تھی ان کا ماننا ہے کہ بابری مسجد کے مقام پر ہی بھگوان رام کی پیدائش ہوئی تھی اور اس لیے مسجد کی زمین کی ملکیت مندر کی ہے.یہ تنازع 19ویں صدی میں انگریزوں کے دورِ حکمرانی میں سامنے آیا تھا لیکن پہلی بار یہ کیس 1885 میں فیض آباد کے کمشنر کی عدالت میں پیش ہوا اس وقت کمشنر نے مسجد اور اس کے احاطے پر ہندوﺅں کے ملکیت کے دعوے کو مسترد کر دیا تھا آزادی کے بعد دسمبر 1949 کی ایک رات بابری مسجد کے درمیانی گنبد کے نیچے مبینہ مندر کے مقام پر بگھوان رام کی مورتی رکھ دی گئی کشیدگی کے ماحول میں اس مسجد پر تالا لگا دیا گیا اور وہاں نماز پڑھنے پر پابندی عائد کر دی گئی مقامی مسلمانوں نے مسجد میں مورتی رکھے حانے کے خلاف پولیس میں رپورٹ درج کرائی اور وہاں سے مورتی ہٹانے کا مطالبہ کیا اور اس کے بعد ہندوﺅں نے بھی مسجد کی زمین پر ملکیت کا مقدمہ دائر کیا.1980 کے عشرے کے اواخر میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سنیئر رہنما ایل کے ایڈوانی کی قیادت میں آر ایس ایس سے وابستہ وشوا ہندو پریشد کے توسط سے بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر کی تحریک شروع ہوئی.

چھ دسمبر 1992 کو اسی تحریک کے تحت ایودھیا میں جمع ہونے والے ہزاروں ہندوﺅں کے ایک ہجوم نے بابری مسجد کو منہدم کر دیا اور اس منہدم مسجد کے منبر کے مقام پر دوبارہ مورتیاں نصب کر دیں گئیں اور وہاں ایک عارضی مندر بنا دیا گیا اس وقت سپریم کورٹ نے اس متنازع مقام کے حوالے سے حکم امتناعی جاری کیا تاکہ حالات مزید کشیدہ ہونے کے بجائے جوں کے توں رہیں. فیصلے کے ابتدائی حصے میں عدالت عظمیٰ بابری مسجد کے مقام پر نرموہی اکھاڑے اور شیعہ وقف بورڈ کا دعویٰ مسترد کرتے ہوئے بھارتی چیف جسٹس نے سماعت میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ تاریخی شواہد سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بابری مسجد کی تعمیر خالی زمین پر نہیں کی گئی تھی‘ مسلمان مسجد کے اندرونی مقام پر عبادت کرتے تھے جبکہ ہندو مسجد کے باہر کے مقام پر اپنی عبادت کرتے تھے.چیف جسٹس نے کہا کہ ہندوﺅں کی جانب سے یہ دعویٰ کہ دیوتا رام کا جنم بابری مسجد کے مقام پر ہوا تھا غیر متنازع ہے جبکہ مذکورہ زمین کی تقسیم قانونی بنیادوں پر ہونی چاہیے. بابری مسجد فیصلے کے حوالے سے پورے بھارت میں سیکیورٹی کے انتظامات سخت کردیے گئے تا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کسی بھی ناخوشگوار صورتحال سے بچا جاسکے سڑکوں پر سیکیورٹی اہلکاروں کی تعداد میں اضافہ اور حفاظتی انتظامات کو یقینی بنانے کے لیے اضافی انتظامات کیے گئے ہیں.سپریم کورٹ کے فیصلے کے تناظر میںایودھیا سمیت پورے اترپردیش کو سیکیورٹی کے حصار میں قید کردیا گیا ہے جس کے تحت تمام دھرماشالے بند کردیے گئے جبکہ غیر مقامی افراد کو شہر سے نکلنے کا حکم دیا گیا. علاوہ ازیں کسی بھی ممنوعہ اجتماع سے بچنے کے لیے جموں کشمیر، اتر پردیش اور گووا میں دفعہ 144 نافذ کردی گئی جبکہ متعدد ریاستوں میں تمام تر تعلیمی ادارے بند ہیں دوسری جانب فیصلے کے پیشِ نظر علی گڑھ میں رات کو ہی موبائل فون سروس معطل کردی گئی تھی جبکہ حکام کا کہنا تھا کہ حالات کے پیشِ نظر ایودھیا میں بھی انٹرنیٹ سروس معطل کی جاسکتی ہے.خیال رہے کہ یاد رہے کہ 6 دسمبر 1992 میں مشتعل ہندو گروہ نے ایودھیا کی بابری مسجد کو شہید کردیا تھا جس کے بعد بدترین فسادات نے جنم لیا اور 2 ہزار افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، ان فسادات کو تقسیم ہند کے بعد ہونے والے سب سے بڑے فسادت کہا گیا تھا. جب بابری مسجد کو شہید کیا گیا تھا اس کے بعد سے اس مقام کا کنٹرول سپریم کورٹ نے سنبھال لیا تھا بھارت کی ماتحت عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ 2.77 ایکڑ کی متنازع اراضی مسلمانوں اور ہندووں کے درمیان تقسیم ہو گی.ایودھیا کے اس مقام پر کیا تعمیر ہونا چاہیے، اس حوالے مسلمان اور ہندو دونوں قوموں کے افراد نے 2010 میں بھارتی ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ اپنی اپنی درخواستیں سپریم کورٹ میں جمع کروا رکھی تھیں جس نے اس معاملے پر 8 مارچ کو ثالثی کمیشن تشکیل دیا تھا اس تنازع کے باعث بھارت کی مسلمانوں اقلیت اور ہندﺅں اکثریت کے مابین کشیدگی میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا تھا.خیال رہے کہ بابری مسجد کے حوالے سے مسلمانوں کا موقف ہے کہ یہ سال 1528 سے موجود مذکوہ مقام پر قائم ہے، مسجد کی موجودگی کا ثبوت یہ ہے کہ اس کے خلاف 1855، 1934 اور 1949 میں کیس کیے گئے تھے‘برطانوی راج نے بابر کی جانب سے دی گئی امداد کو منظور کر لیا تھا جس کے بعد اس امداد کا سلسلہ نوابوں کی جانب سے جاری رہا. 1885 کے مقدمے کی دستاویزات سے مسجد کی موجودگی کا ثبوت ملتا ہے، مسلمانوں کے پاس اس جگہ کی ملکیت تھی اور وہ 22، 23 دسمبر 1949 تک یہاں عید کی نماز پڑھتے رہے مسلمانوں کا اصرار ہے کہ مسجد کی موجودگی کے حوالے سے تاریخ دانوں کے متنازع دلائل انتہائی کمزور ہیں اور ان کا کوئی ثبوت موجود نہیں.

عینی شاہدین کے ثبوتوں کے مطابق لوگوں کا صدیوں سے ماننا ہے کہ ایودھیا میں بھگوان رام کا جنم ہوا تھا اے ایس آئی کی رپورٹ سے مندر کی موجودگی اور اسے ڈھائے جانے کا ثبوت ملتا ہے واضح رہے کہ رواں برس بھارت کی سپریم کورٹ نے مسلمانوں اور ہندوﺅں کے درمیان بابری مسجد اور رام مندر کی زمین کا تنازع حل کرنے کے لیے ثالثی ٹیم تشکیل دی تھی.یہاں یہ بات یاد رہے کہ 2010 میں بھارتی ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ میں درخواستیں دائر کی گئی تھیںبھارت کی ماتحت عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ 2.77 ایکڑ کی متنازع اراضی مسلمانوں اور ہندوﺅں کے درمیان تقسیم ہو گی یاد رہے کہ دسمبر 1992 میں ایودھیا بابری مسجد کا تنازع اس وقت پرتشدد صورت اختیار کرگیا تھا جب راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس)، وشوا ہندو پریشد اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے حمایت یافتہ مشتعل ہجوم نے بابری مسجد کو شہید کردیا تھا.گزشتہ 3 دہائیوں میں کشمیر میں بھارت کی پالیسیوں کے خلاف مزاحمت کرنے والے ہزاروں کشمیری جاں بحق ہوچکے ہیں جبکہ ایودھیا میں 500 سال قدیم مسجد کو شہید کرنے کی وجہ سے ہونے والے فسادات میں 2 ہزار افراد قتل کردیے گئے تھے جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی. انتہا پسند ہندوﺅں کے مطابق وہ اس مقام پر ہندو دیوتا رام کا نیا مندر تعمیر کرنا چاہتے ہیں، جو ان کی جائے پیدائش ہے ان کا موقف ہے کہ 16ویں صدی کی بابری مسجد، مسلم بادشاہوں نے ہندو دیوتا کا مندر گرانے کے بعد قائم کی تھی. یاد رہے کہ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے 2014 اور 2019 میں انتخابات سے قبل اس مقام پر مندر تعمیر کرنے کا وعدہ کیا تھا، جس کی وجہ سے وہ انتہا پسند ہندووں کے بڑے پیمانے پر ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے تھے.