نگران حکومت کو آئین و قانون میں ترمیم کا کوئی اختیار نہیں

صوابی:نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ9 مئی کو ملک میں ہنگامے مسلمہ حقیقت ہے، ہر ملک میں ریاستی تنصیبات پر حملے جرم تصور کئے جاتے ہیں، جمہوریت اور حکومت کا جائزہ کارکردگی کی بنیاد پر لینا چاہئے، جو مقبولیت کارکردگی بہتر بنانے کے کام نہیں آتی وہ تباہی ثابت ہوتی ہے، جمہوری اصول ہر کوئی چاہتا ہے لیکن جمہوریت میں کارکردگی پر کوئی بات نہیں کرتا۔ان خیالات کا اظہار انہوں نےغلام اسحاق خان انسٹیٹیوٹ آف انجینئرنگ، سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی کے طلباء و طالبات کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں قوانین نافذ ہیں جن کے تحت ان کے خلاف مقدمات درج ہوئے ہیں۔ قوانین کی روشنی میں لوگوں کو حراست میں رکھنا اور قید کرنا ریاست کا اختیار ہوتا ہے۔ریاست کے اس اختیار کو چیلنج کرنا ریاست کی بقاء کو چیلنج کرنے کے برابر ہے، کسی گروہ یا سیاسی جماعت نے کسی رہنما کو جیل میں نہیں ڈالا، اگر یہ کام کسی سیاسی یا نجی گروہ نے کیا ہوتا تو یہ قانون کی خلاف ورزی ہوتی، ماضی میں کئی سیاسی رہنما جیلوں کا سامنا کر چکے ہیں، قانون میں عدالت سے رجوع کرنے کا حق موجود ہے، اس نظام کو سب تسلیم کرتے ہیں اگر کسی کو اس نظام پر اعتراض ہے تو 8 فروری کو ملک میں الیکشن کے نتیجے میں جو بھی حکومت آئے گی وہ آئین میں کوئی ترمیم کرنا چاہتی ہے تو کر سکتی ہے۔نگران حکومت کو آئین و قانون میں ترمیم کا کوئی اختیار نہیں ہے، 9 مئی کو ملک میں ہنگامے ہوئے ہیں یہ مسلمہ حقیقت ہے،9 مئی کو فوجی اور دیگر تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا، امریکہ میں بھی اس طرح کے واقعات میں ملوث افراد کو سزائیں ہوئی ہیں اور دنیا نے ان اقدامات کو تسلیم کیا ہے، مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ایک طرف ہمیں سویلین بالادستی، جمہوریت اور آزادی اظہار رائے چاہئے، ہمارے پڑھے لکھے طبقے کو اپنی سیاسی رائے کے اظہار اور احتجاج کی اجازت تو چاہئے لیکن اسے اپنے سیاسی رویے پر بحث قطعی قبول نہیں ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ طلباء کا یہ حق ہے کہ وہ جس بھی سیاسی رہنما کی حمایت کرنا چاہیں، کر سکتے ہیں، کوئی ان کے اس حق کو چیلنج نہیں کر رہا، اسلام میں طبقات کے مابین کشمکش کا کوئی تصور نہیں ہے، اسلام میں کلاس کوآرڈینیشن کا نظام ہے، معیاری مذاکرے مثبت سوچ اور رجحان کو پروان چڑھاتے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے اپنی اس رائے کا اظہار کیا کہ جمہوریت اور حکومت کا جائزہ کارکردگی کی بنیاد پر لینا چاہئے، مختلف خطوں اور ممالک میں ارتقائی عمل کے تحت نظام تشکیل پائے ہیں، جمہوریت مختلف مراحل طے کرتے ہوئے آگے بڑھی ہے، پارلیمانی نظام نے بتدریج طاقت حاصل کی ہے، جمہوریت میں احتساب کا نظام موجود ہے، کارکردگی، ترجیحات اور پالیسیوں کی بنیاد پر کوئی لیڈر مقبول ہو تو یہ جمہوریت کیلئے بہتر ہوتا ہے، اگر مقبولیت کارکردگی بہتر بنانے کے کام نہیں آتی تو وہ تباہی ثابت ہوتی ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں جمہوریت ابھی مکمل نہیں ہوئی، جمہوری عمل بتدریج آگے بڑھ رہا ہے اور دنیا کے کئی ممالک میں ایسی ہی صورتحال ہے، جمہوریت میں کوئی طاقت کے ذریعے حکومت میں نہیں آتا بلکہ انتخابی عمل کے نتیجہ میں حکومت معرض وجود میں آتی ہے، جمہوری اصول کو تو سب اپنانا چاہتے ہیں لیکن جمہوریت کی پرفارمنس میں کسی کی دلچسپی نہیں ہے، جن ممالک میں جمہوریت مستحکم ہوتی ہے وہاں پرفارمنس کو بہت اہمیت دی جاتی ہے، ہم ابھی تک ٹرانزیشن میں پھنسے ہوئے ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ ریاست ناکام نہیں ہوئی، ریاست کامیابی سے اپنا کام کر رہی ہے البتہ اسے بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ ملک کی نظریاتی سرحدوں کا دفاع طلباء کریں گے، اسلام میں مذاکرے اور گفتگو کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے، طلباء اپنے اندر اہلیت پیدا کریں کہ وہ ملک کی نظریاتی سرحدوں کا دفاع کرنے کے قابل ہو سکیں۔ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ خواتین کی کامیابیوں کو بھی اجاگر کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں اپنے سماجی رویے درست کرنا ہوں گے اور اپنی خواتین کو بھی مواقع فراہم کرنا ہوں گے، خواتین کو تعلیم کے مواقع فراہم نہ کرنا جہالت اور فرسودگی ہے، خواتین کی تعلیم کیلئے حکومتی اقدامات کے ساتھ ساتھ سماج میں تحریک چلانا ہو گی، حکومتی سطح پر صنفی امتیاز نہیں برتا جاتا اور خواتین کو برابر کے حقوق حاصل ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ آئین میں ملازمتوں میں بلوچستان کا 6 فیصد کوٹہ مقرر ہے، اگر کہیں اس کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو اس پر کارروائی کی جائے گی۔ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ ملکی صنعتوں اور کارپوریٹ سیکٹر کے ملک کے اچھے تعلیمی اداروں کے ساتھ روابط استوار ہونے چاہئیں، اس حوالے سے تجاویز کا جائزہ لیا جائے گا۔ ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ تنقید کرنے کیلئے گالی دینا ضروری نہیں ہے، تنقید ضرور کریں کسی نے تنقید سے نہیں روکا نہ ہی تنقید کو روکا جا سکتا ہے، المیہ یہ ہے کہ تنقید نگار تو پیدا ہی نہیں ہو رہے۔وزیراعظم نے کہا کہ بھارت سے جب 60 کی دہائی میں لوگ باہر گئے تو اسے بھی برین ڈرین سے تعبیر کیا گیا، وہ باہر جا کر ترقی کر گئے، سرمایہ کمایا، مہارت حاصل کی اور واپس آ کر اپنے ملک اور معاشرے میں سرمایہ کاری کی، جو بچے آج ہمارے ملک سے جا رہے ہیں یہ دنیا سے بہتر چیزیں سیکھ کر آئیں گے، لوگ بہتر مواقع کیلئے ہمیشہ سے نقل مکانی کرتے رہے ہیں، ہیومن ریسورس کو ایکسپورٹ کرنا ہمارے جی ڈی پی کا حصہ ہے، یہاں سے جانے والے نوجوان ہماری طاقت ثابت ہوں گے، یہ ہماری کمزوری کا باعث نہیں ہوں گے، سعودی عرب میں بڑے پیمانے پر افرادی قوت کی ضرورت ہے، ان مواقع سے استفادہ کرنا چاہئے۔