پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان معاہدے، ایک نئے باب کا آغاز

دوبئی:نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ متحدہ عرب امارات ( یو اے ای) کی جانب سے موسمیاتی تبدیلیوں ، خاص طور پر گلوبل ساؤتھ میں ان کو کم کرنے کے لیے سرمایہ کاری کے لیے 30 بلین ڈالر کے فنڈ کا اعلان ایک جرات مندانہ اور تاریخی اقدام ہے۔ متحدہ عرب امارات کےاخبار الاتحاد کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں وزیر اعظم نےیو اے ای کی جانب سے عالمی موسمیاتی کانفرنس کی میزبانی کو سراہتے ہوئے کہا کہ میں صدر عزت مآب شیخ محمد بن زاید اور متحدہ عرب امارات کی حکومت کو ایسی شاندار تقریب کی میزبانی پر مبارکباد پیش کرتا ہوں جس نے نہ صرف موسمیاتی تبدیلی کے حوالہ سےمتحدہ عرب امارات کی وابستگی ، یو اے ای کی اخلاقی ذمہ داری، سیاسی وابستگی اور ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے سماجی وابستگی کا احساس بھی اجاگر کیا۔شیخ زید کی میراث،دونوں ممالک کے درمیان قریبی رشتوں کی وضاحت کرتے ہوئے نگراں وزیراعظم نے متحدہ عرب امارات کے بانی مرحوم شیخ زید بن سلطان النہیان کو دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کی مضبوط بنیاد رکھنے پر خراج تحسین بھی پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے میں متحدہ عرب امارات اور پاکستان کے درمیان باہمی تعلقات کے بیج بونے کے لیے عزت مآب مرحوم شیخ زاید کے لیے اظہار تشکر کرتا ہوں اور ان کیلئے دعا گو ہوں۔ اس ورثہ کو ان کے قابل فخر فرزند نے بجا طور پر آگے بڑھایا ہے اور اپنی قیادت میں انہوں نے اپنے والد کے وژن کو ایک اور سطح پر پہنچا دیا ہے۔ہم نے دیکھا ہے کہ ان کے اقدامات سے نہ صرف متحدہ عرب امارات اور پاکستان بلکہ پورے خطے کے باہمی تعلقات مزید مستحکم ہوئے اور نئے مواقع میں تبدیل ہوئے ۔ انہوں نے کہا کہ آپ پاکستان کو ایک قابل اعتماد اور پائیدار شراکت دار پائیں گے اور ہم متحدہ عرب امارات اور اس کی قیادت صدر عزت مآب محمد بن زاید پر اندھا اعتماد کرتے ہیں۔مزید برآں وزیراعظم نے کہا کہ دو طرفہ تعلقات کی مضبوطی کا سہرا متحدہ عرب امارات میں مقیم 1.7 ملین پاکستانی تارکین وطن کے سر ہے اور انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان قریبی تعلقات کو بڑھانے میں مزید کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی تارکین وطن کی شراکت متحدہ عرب امارات کے اقتصادی ڈھانچے کی ترقی سے ماورا ہے۔ ان کی یہاں موجودگی نے اپنے ملک میں ان کے اپنے اہل خانہ اور برادریوں کیلئے بھی اہم کردار کی حامل ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانیوں کی یہاں متحدہ عرب امارات میں موجودگی کی وجہ سے ان کے بچے سکول جا سکتے ہیں، ایسے لوگ بھی ہیں جو یہاں متحدہ عرب امارات میں موجودگی کی وجہ سے طبی امداد حاصل کر رہے ہیں اور بہت سے لوگ متحدہ عرب امارات میں اپنی موجودگی کی وجہ سے معمول کے مطابق یا اس سے بہتر زندگی گزار رہے ہیں۔موسمیاتی تبدیلی کے موضوع کی جانب بڑھتے ہوئے نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ متحدہ عرب امارات کی طرف سے موسمیاتی فنڈ کا اقدام امید افزا ہے اور اس کو عالمی سطح پر اور خاص طور پر گلوبل ساؤتھ میں ٹھوس منصوبوں میں شمار کیا جائے گا۔ وزیر اعظم نے خصوصی طور پر کہا کہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے اور شراکت کو بھی عالمی ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ صرف متحدہ عرب امارات ہی نہیں ہونا چاہئے جو موسمیاتی تخفیف کو پورا کرے۔انہوں نے کہا کہ جب عالمی آب و ہوا میں بہتری کی بات آتی ہے تو آسمان اس کی حد ہے جو جدید علم پر مبنی معیشتوں اور کم کاربن کی طرف تبدیلی کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی ایک مشترکہ چیلنج اور موسمیاتی اثرات کے حوالہ سے وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی کو “قومی سلامتی کا چیلنج” اور ایک مشترکہ عالمی مسئلہ سمجھتا ہے۔انہوں نے کہا کہ جدید قومی ریاست کے لیے اگر کوئی چیلنج ہے جو دشمن اور دوست کے روایتی تصور سے ہٹ کر ہے تو یہ ایک جغرافیائی نقطہ سے دوسرے ملک میں مختلف ہوتا ہے۔ یہ خطے کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی ہم سب کے لیے ایک مشترکہ چیلنج ہے، چاہے کوئی چھوٹی قوم ہو یا بڑی قوم۔ نگراں وزیر اعظم نے مزید کہا کہ کوئی بھی اس مفروضے پر بھروسہ نہیں کر سکتا کہ خشک سالی صرف ایک خاص ملک کو متاثر کرے گی، یا سمندری طوفان کسی مخصوص قوم کو نشانہ بنائے گا، یا گلیشیئر کا پگھلنا صرف مخصوص خطوں میں ہوگا، ہاں مگر بعض ممالک موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے کے حوالہ سے زیادہ کمزور ہوں لیکن یہ کمزوری دوسروں کی حفاظت نہیں کرتی۔انوار الحق کاکڑ نےتصدیق کی کہ موسمیاتی تبدیلی اپنا چہرہ، ہیئت اور شکل بدل رہی ہے جس سے کم و بیش پوری دنیا متاثر ہو رہی ہے۔انوار الحق کاکڑ نے پرعزم حکمت عملی اور اقدامات ، موسمیاتی تبدیلی کے مسائل کے حل کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ سائنسی اور تجرباتی شواہد سے حکومتوں کی رہنمائی کریں۔ متاثرہ ممالک اور ساتھ ہی کاربن کا زیادہ اخراج کرنے والے ممالک مکالمے کے لیے حوالہ کی شرائط کا تعین کریں۔ انہوں نے کہا کہ یہ شرائط تمام شراکت داروں کے کردار کا ایک خاکہ پیش کرتی ہیں۔وزیر اعظم نے کہا کہ “فیصلہ کرنے کے بجائے، چیلنج کو حل کرنے پر توجہ دی جانی چاہیے اور اہم سوال یہ ہے کہ یہ کردار کون ادا کرے گا”۔ انہوں نے کہا کہ ابتدائی مراحل میں اس عمل کے نتائج انسانی علم کے دائرہ سے باہر تھے۔ اب، سب صورتحال سے واقف ہیں۔ انہوں نے زور دیاکہ کردار کی وضاحت اور اس بات کا تعین کرنا کہ کون فعال طور پر کردار ادا کرے گا، آب و ہوا کے مسئلے کو حل کرنے کی کلید ہے۔وزیر اعظم نے موسمیاتی ڈومین میں سائنسی ترقی کے قریبی مشاہدہ کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا اور کہا کہ ایک دہائی کی بحث دوسری میں متروک ہو گی لہذا ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ تبدیلی کلیڈوسکوپک(بار بار ) ہوگی اور یہ کافی تیز ہوگی۔ لہذا ہمیں اس بارے میں چوکنا رہنا ہوگا کہ سائنسی ترقی کیا ہو رہی ہے اور ہمیں اس پر نظر رکھنی ہوگی۔ وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے موسمیاتی تخفیف کے حوالہ سے پائیداری اور موسمیاتی جنگ میں پاکستان کی کوششوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہمارا ملک متحدہ عرب امارات کی زیر قیادت کلائمیٹ فنڈ سے بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ پاکستان اس طرح کے فنڈز سے فائدہ اٹھانے والوں میں سے ایک ہو گا اور خاص طور پر جب یہ فنڈ متحدہ عرب امارات جیسے برادر ملک سے آتا ہے۔