نئے ٹیکسوں سے عام آدمی متاثر نہیں ہو گا

اسلام آباد:وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ 170 ارب روپے کے محصولات کی وجہ سے ملکی معیشت کو استحکام ملے گا، نئے ٹیکسوں سے عام آدمی متاثر نہیں ہو گا بلکہ امراء کی لگژری اشیاء مہنگی ہوں گی، تمام جماعتیں مل کر میثاق معیشت کریں تاکہ ملک میں کسی بھی جماعت کی حکومت ہو ریاست اپنا سفر جاری رکھ سکے، مسلم لیگ (ن) کے سابق دور حکومت میں پاکستان جی 20 کلب میں شامل ہونے جا رہا تھا، مگر بدقسمتی سے ہم 2022 میں ہم 47 ویں معیشت بن گئے، معاشی تنزلی کے حالات کے جاننے کے لئے قومی کمیشن تشکیل دیا جائے، معاشی اصلاحات کے نتیجہ میں ہماری جی ڈی پی اور ترقی کی شرح بہتر ہو گی۔ قومی اسمبلی میں مالی (ضمنی بل 2023 پیش کرنے کے بعد اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر خزانہ محمد اسحق ڈار نے ماضی قریب کی معاشی تاریخ کا جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے دور میں جی ڈی پی میں 112 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا جبکہ پی ٹی آئی کی ناقص معاشی پالیسیوں کی وجہ سے صرف 26 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا، 2013 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے جب اقتدار سنبھالا تو فی کس آمدنی 1389 ڈالر تھی، مسلم لیگ (ن) کی پالیسیوں کے نتیجہ میں یہ 1700 ڈالر سے زائد ہوئی جبکہ پی ٹی آئی کی حکومت صرف اس میں 30 ڈالر کا اضافہ کر سکی۔انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے ہمیشہ کم سے کم قرضوں پر انحصار کیا، ہمارے دور میں قرضے 24953 ارب روپے تھے، پی ٹی آئی نے ان قرضوں کے حجم کو بڑھا کر 52000 ارب روپے تک پہنچا دیا جس کی وجہ سے ہماری قرضوں کی ادائیگی کی سالانہ شرح 5 ہزار ارب سے تجاوز کر گئی ہے۔ جاپان کے معروف ادارے جیٹرو نے ہمارے دور حکومت میں پاکستان کو سرمایہ کاری کے لئے پسندیدہ ترین ملک قرار دیا، اچانک غیر سیاسی تبدیلی نے ملک کی معیشت کو اپاہج کر کے رکھ دیا جو ملک دنیا کی چوتھی معیشت بن گیا تھا جو اب 47 ویں نمبر پر آ گیا ہے، ہمارے پچھلے دور حکومت میں یہ کہا جا رہا تھا کہ پاکستان جی 20 کلب میں شامل ہونے جارہا ہے، مگر بدقسمتی سے 2022 میں ہم 47 ویں معیشت بن چکے ہیں۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس معاشی تنزلی کے حالات جاننے کے لئے قومی کمیشن تشکیل دیا جائے تاکہ قوم حقائق جان سکے۔ انہوں نے کہا کہ تجارتی خسارہ 40 ارب ڈالر تک پہنچ گیا تھا جو ہمارے دور حکومت میں بہت کم تھا۔ انہوں نے کہاکہ موجودہ حکومت کے معاشی اقدامات جاری تھے کہ تاریخ کا بد ترین سیلاب آ گیا جس سے 3 کروڑ 30 لاکھ سے زائد لوگ متاثر ہوئے، اس تباہی کا عالمی اداروں نے تخمینہ 8 ہزار ارب روپے لگایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے دنیا کا آٹھواں شدید متاثرہ ملک ہے، قلیل مالی وسائل کے باوجود حکومت نے صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر اس صورتحال کے پیش نظر وسائل مختص کئے۔انہوں نے کہا کہ 2019 میں عمران حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ جو معاہدہ کیا وہ کسی حکومت کا نہیں بلکہ ریاست کا معاہدہ تھا، بعد ازاں سابق وزیراعظم نے اپنے ہی معاہدے سے انحراف کیا، عدم اعتماد کی تحریک کے بعد انہوں نے معاہدہ کے نکات برعکس اقدامات کئے جس سے آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں خلل آیا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت نے عمران خان کے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کو من و عن تسلیم کیا، معاشی صورتحال کی وجہ سے حکومت میں شامل تمام جماعتوں کو ملک کی معاشی صورتحال کی وجہ سے بے پناہ نقصان ہوا ہے، ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ریاست ہے تو سیاست ہے۔انہوں نے کہا کہ اس بل کے ذریعے 170 ارب روپے کے محصولات لگانا مقصود ہیں، آئی ایم ایف کی ٹیم نے ایف بی آر کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا ہے، اضافی محصولات کا حکومت کی کارکردگی سے کوئی تعلق نہیں ہے، بجلی کی چوری، لائن لاسز اور بلوں کی ریکوریوں کی مد میں 1400 ارب کے نقصانات ہیں، ایسے نقصانات کی کوئی بھی ریاست متحمل نہیں ہو سکتی، ہماری گذشتہ حکومت نے گردشی قرضوں کے حجم میں کمی لانے کے لئے اقدامات اٹھائے مگر پی ٹی آئی حکومت نے 1100 ارب روپے کے گردشی قرضوں کو بڑھا کر 2467 ارب تک پہنچا دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس صورتحال میں لازم ہے کہ چند مشکل فیصلے کریں جو ناگزیر ہیں۔انہوں نے کہا کہ عالمی مالیاتی اداروں نے بھی اس شعبہ میں اصلاحات کی بات کی ہے، وفاقی کابینہ نے 170 ارب کے ٹیکس لگانے کی منظوری دی ہے، روز مرہ کی گھریلو اشیاء پر ٹیکس اور عام آدمی پر ٹیکس نہیں لگے گا، حکومت نے امیر ترین لوگوں کے لگژری آئٹم پر جی ایس ٹی کی شرح کو 25 فیصد، فرسٹ اور بزنس کلاس میں سفر کرنے والوں پر 20 فیصد ڈیوٹی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اسی طرح شادی کی تقریبات میں سادگی کو فروغ دینے کے لئے 10 فیصد ود ہولڈنگ ایڈوانس ٹیکس لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ سگریٹ اور مشروبات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کیا جا رہا ہے، سیمنٹ پر ایکسائز ڈیوٹی 1.50 روپے سے بڑھا کر دو روپے فی کلو گرام کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جی ایس ٹی کی شرح کو 17 سے بڑھا کر 18 فیصد کیا گیا ہے، کھلے فروٹ، گوشت، دالوں اور روز مرہ کی اشیاء پر ٹیکس نہیں لگے گا۔ انہوں نے کہا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لئے مختص رقم میں 40 ارب مزید اضافہ کیا جا رہا ہے، یہ 360 ارب سے بڑھا کر 400 ارب روپے ہو جائے گی۔ اس سلسلہ میں وزیراعظم شہباز شریف چند دنوں میں عوام کو اعتماد میں لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ان اصلاحات کے نتیجہ میں معاشی استحکام آئے گا اور ترقی کا عمل شروع ہو گا، جی ڈی پی کی شرح بہتر ہو گی۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم خود بحث کریں گے، کابینہ اپنے اخراجات کم کرے گی، زراعت، صنعت کے لئے کئے جانے والے اقدامات کی وجہ سے آئندہ سال جی ڈی پی کا ہدف 4 فیصد ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو گا، روپے کی قدر میں استحکام آئے گا، برآمدات بڑھیں گی کیونکہ برآمدات کے لئے پیداواری عمل میں خام مال کی درآمد بنیادی اہمیت کی حامل ہے اس لئے ایل سیز کے معاملے کو بہتر بنائیں گے جس سے برآمدات کی صنعتوں کا پیداواری عمل بہتر ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ مالی خسارے کے عمل کو بہتر بنانے کے لئے ایف بی آر محصولات کا ہدف پورا کرے گا۔انہوں نے کہا کہ 170 ارب روپے کے اضافی محصولات سے مالی خسارے میں کی آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ زراعت کا شعبہ کم سے کم وقت میں ملک کی معیشت کو بہتر بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے، اس لئے وزیراعظم نے 2000 ارب روپے کا کسان پیکج کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس شعبے کے لئے 1819 ارب روپے کے زرعی قرضوں میں 1000 ارب سے زائد کے قرضے ادا بھی کئے جا چکے ہے، رواں سال زرعی مشینری کے لئے سبسڈی اور آسان قرضے فراہم کئے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ درآمدی یوریا کھاد موجودہ صورتحال میں انتہائی مہنگی پڑتی ہے جبکہ مقامی یوریا کھاد سستی ہے، یہ نہیں ہو سکتا کہ ملک میں یوریا کھاد کی دو قیمتیں ہوں اس لئے یوریا کھاد کی قیمتوں کو کم سطح پر رکھنے کے لئے اس شعبہ کو 30 ارب روپے کی سبسڈی دی جائے گی۔