صحافت کی آڑ میں کسی کو عزت پامال کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، فواد چوہدری

لاہور:وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین نے کہا ہے کہ بہت جلد ملک میں ڈیجیٹل انقلاب آئے گا، ہمارا میڈیا ریگولیٹری سسٹم پسماندہ ہے، میڈیا میں نئے آنے والوں کی تربیت ضروری ہے، ایسے میڈیا قوانین ہونے چاہئیں کہ کوئی انہیں ذاتی مفادات کے لئے استعمال نہ کر سکے، صحافت کی آڑ میں کسی کی عزت پامال کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، تمام اداروں کو اپنی آئینی حدود کے اندر رہ کر کام کرنا ہوگا، حکومت مثبت صحافت کے فروغ کے لئے تمام وسائل بروئے کا ر لا رہی ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے نیشنل پریس ٹرسٹ کے زیر اہتمام میڈیا ٹریننگ ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ موجودہ دورہ ڈیجیٹلائزیشن کا ہے جس میں میڈیا کی اہمیت ریڑھ کی ہڈی کی سی ہے۔انہوں نے کہا کہ موجودہ دور ہتھیاروں سے لڑی جانے والی جنگ کا نہیں بلکہ میڈیا وار کا دور ہے، بھارت نے نور مقدم کیس پر ویڈیو تیار کر کے پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کی۔ چوہدری فواد حسین نے کہا کہ ہمیں اپنے میڈیا قوانین میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ رپورٹر کو واقعہ کی رپورٹ کرتے وقت مکمل طور پر غیر جانبدار ہونا چاہئے تاکہ خبر کے اصل حقائق مسخ نہ ہوں، اس کے لئے تربیت ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمارے ہاں اکثر رپورٹرز اپنے آپ کو تجزیہ کار سمجھنا شروع کر دیتے ہیں اور وہ ہر خبر کو اپنے انداز سے پیش کرنا چاہتا ہے جو مثبت صحافت کے لئے موزوں نہیں۔وزیر اطلاعات نے کہاکہ قانون کسی شخص کی تذلیل کی اجازت نہیں دیتا، صحافت کی آڑ میں کسی کی عزت پامال کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ حال ہی میں ایک خاتون رکن قومی اسمبلی پر انتہائی شرمناک انداز میں صحافت کی آڑ میں کیچڑ اچھالا گیا، کوئی مہذب معاشرہ اس قسم کی بہتان بازی کی اجازت نہیں دیتا۔انہوں نے کہا کہ اب یہ نہیں ہو سکتا کہ اس طرح کا فعل کرنے والے کو صرف لاکھ روپے جرمانہ ادا کر کے چھوڑ دیا جائے۔ چوہدری فواد حسین نے کہا کہ اس طرح کے واقعات پر قابو نہ پایا گیا تو یہاں جنگل کا قانون بن جائے گا۔انہوں نے کہا کہ ایک مقامی اخبار نے پشاور واقعہ کو مذہبی فرقہ واریت کا رنگ دینے کی مذموم کوشش کی جسے آزادی صحافت نہیں کہا جا سکتا، ایسے معاملات کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے آزادی اظہار رائے کی آڑ میں دوسروں کی پگڑی اچھالنے کے واقعات کو کنٹرول کرنے اور صحافت کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لئے ”پیکا ” قانون متعارف کروایا لیکن بدقسمتی سے اس پر اعتراضا ت اٹھائے گئے۔انہوں نے کہاکہ پالیسی بنانے کے اختیار ات عدلیہ کو منتقل نہیں کئے جاسکتے یہ صرف پارلیمنٹ اور حکومت کا اختیار ہے، اعلی عدالتوں کو چاہئے کہ پارلیمنٹ کے پاس کردہ قوانین پر غور کریں یا اس کو ختم کرنے کے لئے اعلی عدلیہ کا فل کورٹ بینچ تشکیل دیا جائے۔چوہدری فواد حسین نے کہا کہ ہم اس بات سے مکمل اتفاق کرتے ہیں کہ میڈیا قانون ایسے نہیں ہونے چاہئیں جنہیں کوئی بھی حکومت بازو مروڑنے کے لئے استعمال کر سکے، حکومت نے کوشش کی پیمرا میں کونسل آف کمپلینٹ میں50 فیصد لوگ میڈیا کی طرف سے منتخب کر دیئے جائیں اور 50 فیصد حکومت کی نمائندگی ہو تاکہ جلد انصاف مہیا کیا جا سکے لیکن اس کوشش کو بھی سیاست کی نظر کر دیا گیا۔انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے سیاسی مفادات کے لئے روڑے اٹکانے شروع کر دیئے اور اسے لاگو نہیں ہونے دیا گیا۔ چوہدری فواد حسین نے کہاکہ بین الاقوامی معیار پر پورا اترنے کے لئے میڈیا میں اصلاحات لانا ضروری ہیں۔ انہوں نے کہاکہ حکومت مثبت صحافت کے فروغ کے لئے تمام وسائل بروئے کا ر لا رہی ہے،نئے صحافیوں کو صحافت میں بہت سے چیلنجز کا سامنا ہوگا جس سے نمٹنے کے لئے وزارت اطلاعات و نشریات تمام پریس کلبز میں ڈیجیٹل اسٹوڈیوز قائم کر رہی ہے تاکہ نئے صحافیوں کو دریپش چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لئے تیار کیا جا سکے۔میڈیا ٹریننگ ورکشاپ سے سینئر اینکرسہیل وڑائچ، سینئر اینکراینڈ اینالسٹ ارشاد عارف، چیئرپرسن و ایسوسی ایٹ پروفیسر پنجاب یونیورسٹی سویرا شامی، عمرفاروقی، چیئرمین نیشنل پریس ٹرسٹ منیر احمد خان اور امجد پرویز ملک نے شرکت کی۔بعد ازاں صحافیوں کوڈیجیٹل میڈیا بارے ٹریننگ دی گئی۔