معاشرہ قانون کی بالادستی اور حکمرانی سے ترقی کرتا ہے، وزیراعظم عمران خان

فیصل آباد:وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ معاشرہ قانون کی بالادستی اور حکمرانی سے ترقی کرتا ہے، پاکستان بڑے چوروں کو سزا نہ ملنے کی وجہ سے تباہ حال ہوا، ماضی میں کرپٹ حکمرانوں نے عوام کو صحت جیسی بنیادی سہولیات سے بھی محروم رکھا، اپنے لئے الگ پاکستان بنا لیا اور اپنی کھانسی کا علاج بھی دبئی، امریکہ اور لندن سے کراتے تھے،پاکستان بنانے کا مقصد یہ نہیں تھا کہ ٹاٹا اور برلا کی جگہ شریف اور زرداری آ جائیں، 30 سال تک ملک پر حکمرانی کرنے والے، عوام کو ان کے حقوق سے محروم رکھنے والے اور پیٹ پھاڑ کر پیسہ نکالنے کے دعوے کرنے والے سارے بڑے چور آج میرے خلاف اکٹھے ہو گئے ہیں،میں اس ملک میں قانون کی بالادستی کی جنگ لڑ رہا ہوں، کرپٹ لوگوں کا مقابلہ کرنے آیا ہوں اور ان قبضہ گروپوں اور ظالموں کو قانون کے نیچے لاؤں گا، یہ اسی لئے مجھ سے ڈرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ میری حکومت جلدی ختم ہو جائے لیکن پاکستان اب صحیح راستے پر چل پڑا ہے اور ہماری حکومت ایسا نظام لا رہی ہے جس میں کوئی طاقتور کسی کمزور کا حق نہ مار سکے۔وہ بدھ کو یہاں فیصل آباد ڈویژن میں نیا پاکستان قومی صحت کارڈز کے اجراء کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار، وفاقی وزراء اسد عمر، شفقت محمود، وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات فرخ حبیب، وزیراعظم کے معاون خصوصی شہباز گِل، وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد اور دیگر موجود تھے۔وزیراعظم نے کہا کہ صحت کارڈ پاکستان کو ریاست مدینہ کے اصولوں کے مطابق بنانے کے سلسلہ کی کڑی ہے، کسی صوبہ کیلئے 400 ارب روپے کی ہیلتھ انشورنس فراہم کرنا آسان نہیں، 74 سالہ تاریخ میں کتنے ہی صدر اور وزیراعظم آئے لیکن کسی نے عوام کو یہ سہولت فراہم کرنے کے بارے میں نہیں سوچا، غریب لوگ کینسر اور امراض قلب سمیت جب مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں تو علاج کا خرچ برداشت نہ کرنے کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں لیکن اب ریاست نے عوام کی صحت کی ذمہ داری لے لی ہے اور غریب لوگ اس صحت کارڈ کی بدولت کسی بھی ہسپتال سے اپنا علاج کرا سکیں گے۔وزیراعظم نے کہا کہ برصغیر کے مسلمانوں نے پاکستان بنانے کیلئے جدوجہد اس لئے کی تھی تاکہ نبی کریمۖؐ کی تعلیمات کے مطابق ریاست مدینہ کی طرز پر اسلامی فلاحی ریاست قائم کی جا سکے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ماضی میں حکمرانوں اور صاحب حیثیت لوگوں نے ہسپتالوں کے معیار کو بہتر بنانے کی بجائے اپنے لئے الگ سہولیات حاصل کر لیں اور سرکاری ہسپتالوں کا معیار گرتا چلا گیا،جن لوگوں کی ذمہ داری عوام کو صحت کی سہولیات فراہم کرنا تھی وہ خود کھانسی کا علاج کرانے بھی باہر جاتے ہیں اور چیک اپ کیلئے کبھی امریکہ، کبھی لندن اور کبھی دبئی پہنچے ہوتے ہیں، آج سارے چور، جو پہلے ایک دوسرے کو چور کہتے تھے اور پیٹ پھاڑ کر پیسے نکالنے کی باتیں کرتے تھے اکٹھے ہو گئے ہیں، 30 سال ملک پر ان کی حکومت تھی لیکن انہوں نے عوام کیلئے کچھ نہیں کیا،پاکستان کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں آبادی کے تناسب کے لحاظ سے سب سے کم ہسپتال، ڈاکٹرز اور نرسیں ہیں، ڈسٹرکٹ ہسپتالوں میں ڈاکٹرز نہیں آتے، حکمران طبقہ نے اپنے لئے الگ پاکستان بنا لیا ہے، پاکستان بنانے کا یہ مقصد نہیں تھا کہ ٹاٹا اور برلا کی جگہ شریف اور زرداری آ جائیں، میرے سیاست میں آنے کا مقصد دو خاندان جو ملک کو لوٹ رہے تھے، کے خلاف جہاد کرنا تھا، سندھ کا ایک لیڈر جو کہتا ہے کہ زیادہ بارش ہوتی ہے تو زیادہ پانی آتا ہے،آج کہہ رہا ہے کہ ہیلتھ انشورنس پر پیسہ خرچ نہیں کریں گے بلکہ ہسپتال بنائیں گے تو میں ان سے پوچھتا ہوں کہ انہوں نے اب تک ہسپتال کیوں نہیں بنائے تھے، یہ عام آدمی کے مسائل سے واقف ہی نہیں ہیں، یہ کبھی عام ہسپتالوں میں نہیں گئے، زرداری پیسے سے لوگوں کو خریدتا ہے، میں سیاست میں کرپٹ لوگوں کا مقابلہ کرنے کیلئے آیا ہوں، ان کرپٹ لوگوں کے ہوتے ہوئے پاکستان کا مقصد حاصل نہیں ہو سکتا، پاکستان اسلامی فلاحی نظریہ کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا تھا، نبی کریمۖؐ نے فرمایا تھا کہ پہلی قومیں اس لئے تباہ ہوئیں کہ غریب چوری کرتا تھا تو اسے سزا دیتے تھے لیکن امیروں کو چھوڑ دیتے تھے، پاکستان بڑے چوروں کو سزا نہ ملنے کی وجہ سے تباہ ہوا، کوئی بھی معاشرہ اور قوم قانون کی بالادستی اور حکمرانی سے ہی آگے بڑھتی ہے،برطانیہ جیسے ملک میں وزیراعظم تک کو جوابدہ ہونا پڑ رہا ہے لیکن یہاں جن کے چپڑاسیوں، پاپڑ والوں اور ملازموں کے اکاؤنٹ میں کروڑوں روپے آتے رہے وہ قانون سے بالاتر رہے، سب کو پتہ ہے کہ ان کے پاس چوری کا پیسہ ہے، یہ برطانیہ میں ہوتے تو کسی کو شکل نہیں دکھا سکتے تھے، یہاں پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر ڈیڑھ ڈیڑھ گھنٹے کی تقریریں کرتے ہیں جو اصل میں ملازمت کی درخواست ہوتی ہے تاکہ انہیں ایک اور موقع مل جائے،جس ملک میں ایسا نظام ہو جس میں صرف چھوٹے چوروں کو پکڑا جائے اور بڑوں کو نہ پکڑا جائے، وہ ملک تباہ ہو جاتا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ایک مجرم جو کہتا تھا کہ مجھے دل کی بیماری ہے اور علاج کرانے باہر گیا تھا، وہ وہاں اپنی فیکٹریاں دیکھ رہا ہے اور یہاں بعض وکیل کہہ رہے ہیں کہ اسے پھر موقع دو، اس کی ساری عمر کی نااہلی کی سزا ختم کرو۔وزیراعظم نے کہا کہ کسی ملک کو ختم کرنے کیلئے بم مارنے کی ضرورت نہیں ہوتی، جو معاشرہ کرپشن کو برا نہ سمجھے وہ تباہ ہو جاتا ہے، جو لوگ پیٹ پھاڑ کر پیسہ نکالنے کے دعوے کرتے تھے اب پیٹ کیلئے آپس میں اکٹھے ہو رہے ہیں کیونکہ انہیں عمران خان کا ڈر ہے، وہ چاہتے ہیں کہ میری حکومت ختم ہو جائے، یہ اپنے کیسز میں لمبی لمبی تاریخیں مانگ لیتے ہیں لیکن انہیں پتہ ہے کہ بالآخر انہوں نے جیل جانا ہے، اس لئے یہ مجھ سے ڈر رہے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ میری حکومت جلد ختم ہو، میں اس ملک میں قانون کی بالادستی کی جنگ لڑ رہا ہوں اور ان قبضہ گروپوں اور ظالموں کو قانون کے نیچے لاؤں گا۔وزیراعظم نے کہا کہ ہماری حکومت ایسا نظام لا رہی ہے کہ کوئی طاقتور کسی کمزور کا حق نہ مار سکے، عورتوں کو وراثت کا حق نہیں دیا جاتا تھا لیکن ہماری حکومت انہیں یہ حق دلا کر رہے گی کیونکہ نبی کریمۖؐ نے قرآنی تعلیمات کے مطابق 1500 سال پہلے انہیں یہ حق دیا تھا۔ وزیراعظم نے کہا کہ صحت کارڈ کی بدولت اب ہارٹ ٹرانسپلانٹ کی سہولت بھی عام آدمی کو میسر ہے،حکومت ملک میں یکساں تعلیمی نصاب لے کر آ رہی ہے، یہ ناانصافی ہے کہ بڑے لوگوں کے بچے انگریزی میڈیم میں پڑھیں اور عام آدمی کیلئے الگ نظام ہو، ہم نے پانچویں تک یکساں نصاب لاگو کر دیا ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ میں چیلنج کرتا ہوں کہ عثمان بزدار کا تین سالہ دور شہباز شریف کے 30 سالہ دور سے بہتر ہے، پہلی دفعہ پنجاب کی تاریخ میں عملی کام ہو رہا ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ سی پیک کا دوسرا مرحلہ شروع ہو رہا ہے جس سے فیصل آباد کو بھی بہت فائدہ ہوگا اور نئی انڈسٹریاں لگیں گی، پاکستان اب اس راستے پر چل پڑا ہے جس کا میں خواب دیکھتا تھا۔