بھارت مذہبی اقلیتوں کے لئے ایک خطرناک ملک بن گیا ہے، عالمی میڈیا

اسلام آباد:بھارت جو 26 جنوری کو نام نہاد 73واں یوم جمہوریہ رہا ہے، درحقیقت مذہبی اقلیتوں کے لئے ایک خطرناک ملک بن گیا ہے جس کی تصدیق عالمی میڈیا اداروں میں شائع شدہ رپوٹس میں کی گئی ہے جہاں مسلمانوں ، عیسائیوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف بدترین مظالم ڈھائے جارہے ہیں بھارت میں مذہبی آزادی کے حالات انتہائی نیچے کی طرف لے جا رہے ہیں، مرکزی اور مختلف ریاستی حکومتیں مذہبی اقلیتوں کوبڑے پیمانے پر ہراساں کرنے اوران کے خلاف تشدد کی سرپرستی کر رہی ہیں ، مودی کی فاشسٹ پالیسیوں نے سیکولر بھارت کے تشخص کو بھی داؤ پر لگا دیا ہے۔فاشسٹ نریندر مودی کی اکثریتی حکمرانی کے تحت بھارت ایک ہندو راشٹرا (ہندو ریاست) بن چکا ہے رپورٹس کے مطابق مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے نفرت انگیز جرائم کی تعداد اور مذہبی امتیاز کے معاملات میں کئی گنا اضافہ ہوا ہےجس کی ایک بڑی مثال شہریت (ترمیمی) ایکٹ (سی اے اے) ہے جسے بی جے پی کی زیرقیادت حکومت نے نافذ کیا، جو صرف افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان کے غیر مسلم تارکین وطن کے لیے بھارتی شہریت کا تیز رفتار راستہ فراہم کرتا ہے جو پہلے سے بھارت میں مقیم ہیں اور جب حکومت اپنے مبینہ ملک گیر نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز کو مکمل کرتی ہے تو ممکنہ طور پر اس لاکھوں مسلمانوں کو حراست، جلاوطنی اور بے وطنی سے دوچار ہونا پڑے گا ۔دوسری مثال عیسائی برادری کے خلاف اکثریتی تشدد کی ہے۔ انسانی حقوق کے ایک گروپ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال2021کے پہلے نو مہینوں میں عیسائیوں پر 300 سے زیادہ حملے ہوئے، جن میں کم از کم 32 حملے کرناٹک ریاست میں ہوئے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عیسائی مخالف تشدد کے کل 305 واقعات میں سے، چار شمالی بھارتی ریاستوں میں 169 واقعات درج ہوئے: 66 بی جے پی کی حکومت والی اتر پردیش میں، 47 کانگریس کی حکومت والی چھتیس گڑھ میں، 30 قبائلی اکثریتی جھارکھنڈ میں، اور بی جے پی کی حکومت والی مدھیہ پردیش میں 30۔ کم از کم نو بھارتی ریاستوں نے تبدیلی مذہب مخالف قوانین کی منصوبہ بندی کی ہے، بشمول چھتیس گڑھ، جو، کارکنوں کا کہنا ہے کہ بھارت عیسائی مخالف نفرت کے لیے ایک “نئی تجربہ گاہ” کے طور پر ابھرا ہے۔اسی رپورٹ میں ایک سخت تضاد کی نشاندہی کی گئی ہے.دریں اثنا، ریاستی حکومتوں نے ایسے قوانین دئے جو اس تعصب کا جواز پیش کرتے ہیں۔ 23 دسمبر کو ریاست کرناٹک کے ایوان زیریں نے مذہب کی آزادی کے حق کے تحفظ کا بل منظور کیا، جو ہندو مذہب سے دوسرے عقیدے میں تبدیلی پر پابندی لگانے کے لیے تیار کیا گیا ہے جبکہ غیر قانونی طور پر بھارتی زیر قبضہ مقبوضہ کشمیر ایک اور کہانی ہے، ایک اور میدان ہے جہاں اکثریتی تعصب کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ 5 اگست 2019 کو بھارتی حکومت نے آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت سابقہ ​​ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو منسوخ کر دیا، اور آرٹیکل 35A کو منسوخ کر دیا جس نے اسے یہ وضاحت کرنے کی اجازت دی تھی کہ اس کے ’’مستقل باشندے‘‘ کون ہیں اور کیا حقوق اور مراعات ایسی رہائش کے ساتھ منسلک ہیں۔سابقہ ​​ریاست لداخ (بغیر مقننہ) اور جموں کشمیر (مقننہ کے ساتھ) کے مرکزی زیر انتظام علاقوں میں تقسیم ہو گئی تھی جس سے اس حقیقت کی تائید ہوتی ہے کہ بھارت مذہبی اقلیتوں کے لیے ایک خطرناک ملک بن چکا ہے، فارن پالیسی کے کالم نگار سمیت گنگولی کے ساتھ ساتھ پولیٹیکل سائنس کے ممتاز پروفیسر اور انڈیانا یونیورسٹی، بلومنگٹن میں بھارتی ثقافتوں اور تہذیبوں میں رابندر ناتھ ٹیگور چیئر، نے بجا طور پر نشاندہی کی ہے کہ بھارت کی مذہبی اقلیتیں حملے کی زد میں ہیں اور ’’وزیراعظم نریندر مودی‘‘۔ نفرت انگیز تقریر اور تشدد کے حالیہ سلسلے پر اس کی خاموشی بہرا کر دینے والی ہے۔اسی طرح مہوش حفیظ نے انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز اسلام آباد کی طرف سے شائع ہونے والے’’’ بھارت میں اقلیتوں کی حیثیت‘‘ کے عنوان سے اپنے مقالے میں بھی نشاند ہی کی ہے کہ “باریک بینی سے دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ جمہوریت اور سیکولرازم یا تنوع میں اتحاد کے تحت اقلیتیں اور خاص طور پر مسلمان اور عیسائیوں کو ہمیشہ انتہا پسند ہندو ہم وطنوں کے ہاتھوں نقصان اٹھانا پڑا ہے۔یہ مصائب اس حق کے باوجود ہو رہے ہیں جو بھارتی آئین نے اپنے تمام شہریوں کو دیا ہے۔ نیز، حالیہ برسوں میں خاص طور پر مودی اور ہندوتوا نظریہ کے عروج کے ساتھ مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔