پاکستان کو بدعنوانی جیسے جرائم کا سامنا ہے، وزیراعظم عمران خان

اسلام آباد:وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ مسلمان نوجوانوں کو بہت دبائو اور چیلنجز درپیش ہیں، پاکستان کو بدعنوانی جیسے جرائم کا سامنا ہے جبکہ اسلامی سکالرز نے بین المذاہب ہم آہنگی پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ نوجوان اخلاقیات کو اپنائیں، جدت پسندی ، آزاد خیالی کا خطرہ منڈلا رہا ہے ہمیں اپنے ماضی کو محفوظ بنانا ہے، نوجوانوں کو اپنی تہذیب ، مذہب اور تاریخ پر فخر ہونا چاہئے، نوجوانوں کو روحانی اور اخلاقی تربیت کا احترام کرناچاہئے۔ وزیر اعظم عمران خان نے قومی رحمت للعالمین اتھارٹی کے زیر اہتمام ریاست مدینہ ، اسلام ، معاشرہ اور اخلاقی بیداری کے موضوع پر مکالمہ کی دوسری نشست کی میزبانی کی ، مکالمہ سے جارج واشنگٹن یونیورسٹی امریکا کے اسلامک سٹیڈیز کے پروفیسر ڈاکٹر سید حسن نصر نے کہا کہ ہم اپنے نوجوانوں کے بارے میں فکر مند ہیں جو آج انتہائی مشکل دور سے گزر رہے ہیں ، ایک طرف ہمیں جدیت کا حل ڈھونڈنا ہے جس کا طویل عرصہ سے دنیا پر غلبہ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ روایات بھی تلاش کرنی ہیں جو جدیدیت ان رجحانات کے خلاف مذحمت کرتی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ قدرتی ماحول کی تباہی کے حوالہ سے بھی نوجوانوں میں حساسیت پائی جاتی ہے ، آج ایک دس سالہ بچے کو بھی یہ یقین نہیں کہ وہ 16سال کی عمر تک زندہ رہے گا ، اس کی دنیا کیسی ہوگی، اس کے سانس لینے کے آکسیجن ہوگی یا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت انسانی وجود کو بہت سی مشکلات کا سامنا ہے ، ہمیں اپنے نوجوانوں کیلئے اس لغو اور خوفناک دنیا کو مثبت تجزیہ کرنا ہوگا ، دنیا ایک فریب ہے اور روح حقیقت ہے ،انسانوں اور زندگی کے روحانی پہلو کو اجاگر کرنے کیلئے اللہ پرایمان لانا ضروری ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف نوجوانوں کو روایتی ، مذہبی اقدار کی جانب مائل کرنا مشکل ہے ، اس کے ساتھ ساتھ دنیا ایک غیر یقینی اور خوفناک مقام بن گئی ہے، ماضی بعید میں ایسا نہیں تھا ، دنیا کی کشش میں بہت زیادہ کمی آ گئی ہے ، یہی وجہ ہے کہ آج بہت سے نوجوانوں کو بہت کچھ دکھائی نہیں دیتا ، اس صورتحال میں ان کے پاس مذہب کی طرف لوٹنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا کام اسلامی تعلیمات کو اس انداز میں پیش کرنا ہے کہ وہ معتبرہونے کے ساتھ ساتھ معقول بھی نظر آئیں۔انہوں نے کہا کہ میں جدیدیت کے خلاف اور ایک روایتی مسلمان ہوں، میں نے 60سال تک اس کے خلاف لکھا لیکن میں نے اس کا مطالعہ بھی کیا ہے اس لیے تھوڑا پریشان ہوں ، ہمیں اسلام کی رسی کو اسطرح پیش کرنے کی ضرورت ہے جو طوفان میں حفاظت کے کام آتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آج کے بدلتے فیشن اور رجحانات بہت سے نوجوانوں کو متاثر کرتے ہیں ، ہمیں صیح معنوں میں انہیں تربیب دینا ہوگی، اس کی اصل حقیقت سے آگاہی دینا ہوگی کہ یہ ہماری روح اور ہمارے بچوں کیلئے کتنے پرفریب ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ دوسری جانب اسلام پر عمل پیرا ہونے کی وہ حقیقت ہے جو ہمیشہ سے موجود ہے ،جس کا پیغمبرۖ ؐنے صحیح معنوں میں عملی نمونہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ غیر سنجیدہ لوگ مسلمانوں کی اچھائیوں پر عمل کئے بغیر اسلام میں بات کرتے ہیں، یہ مارکسزم سے بھی زیادہ بھیانک ہے جو ایک لحاظ سے مذہب پر حملہ کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذہب پر حملہ آور ہونا اس سے بہتر ہے کہ مذہب کی خاکوں کے ذریعے تضحیک کی جائے ، اس کا حلیہ بگاڑتے ہوئے اس کا نام ، شہرت اور اہمیت استعمال کرنا ، ہم ایسی ہی دنیا میں رہتے ہیں ، ہمیں گفتگو سے زیادہ عمل کرنے اور اپنی موجودگی کی حقیقت جاننے کی ضرورت ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہمیں ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جن کو ماڈل کے طور پر پیش کیا جا سکے ، کھلاڑیوں سے لیکر دانشوروں تک ، ادیبوں سے لیکر موجدین تک ہمیں ہر شعبہ میں ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو مثال بن سکیں، جو مسلمانوں کو اسلام اور پیغمبرکیلئے وقف اداروں کی جانب راغب کریں اور ساتھ ہی ساتھ وہ اپنے معاشرے اور اپنے ساتھی مرد و خواتین اور اپنی فطرت سے محبت کریں اور ان کو یہ بھی فکر ہو کہ نوجوانوں کے کیا تحفظات ہیں ، میں ہمیشہ فطرت کا رخ کرتا ہوں ، میں پہلا شخص ہوں جس نے 60کی دھائی میں اس بحران کے بارے میں لکھا تھا ،یہ معاملہ نوجوانوں کی زندگیوں کے حوالہ سے بہت اہم ہے، ہمارے پاس اللہ پر توکل کرنے کا تصور ہونا چاہئے ، اللہ اپنی مخلوق کا تحفظ کرے گا، ہم اس زمین پر اللہ کے خلیفہ ہیں اور اللہ نے اپنی مخلوق کے تحفظ کا فریضہ ہمیں سونپا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ اسلامی دنیا کی گراں قدر روایات ہیں ،بہت سے مسلمان نوجوانوں کو اسلام کے دوسرے پہلوئوں کی جانب متوجہ کیا جا سکتا ہے جو الحمداللہ آج بھی باقی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلام دور حاضر کے فوری نوعیت کے مسائل کا حل پیش کرتا ہے ، جس کے بارے میں وہ نہیں سوچتے ، ایسے سوالات کہ وہ مستقبل میں سانس کیسے لیں گے ،انہیں پینے کیلئے کیسا پانی دستیاب ہوگا، ہمارے پاس بے پناہ وسائل موجود ہیں، ان کو استعمال میں لانا انتہائی ذمہ داری کا کام ہے ۔ انہوں نے وزیر اعظم عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے علم ہے کہ پاکستان میں آپ اسی مسئلہ کے بارے میں فکر مند ہیں ، باقی چیزوں کے بارے میں لکھا بھی جاتا ہے اور بات بھی ہوتی ہے لیکن بد قسمتی سے سب کے بارے میں نہیں ہوتا ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان جیسے ملک میں اگر ہم نے ان مسائل کو حل نہ کیا تو آنے والی نسل کیلئے یہاں رہنا مشکل ہوگا۔ہمارے ملک ایران کو بھی یہی مسئلہ درپیش ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس تہذیب کے وارث ہیں جس کی بنیاد اللہ اور دنیا کے ساتھ ہم آہنگی پر ہے ، آسمانوں اور زمین کے ساتھ ہم آہنگی پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام میں شہروں کی ساری منصوبہ بندی ، فن تعمیر اور ہر چیز مذہب کی عکاسی کرتے دیکھائی دیتے ہیں ، یہ ماحولیات حوالہ سے انتہائی متوازن تھے تاہم ہم نے ان کے ساتھ کیا کیا، ہمیں ان کو واپس لانا ہوگا،ہمیں ان کو اپنے ایمان کی بنیاد پر واپس لانا ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ ان چیزوں کو نوجوانوں کے ذریعے محفوظ بنانے کیلئے اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ، میرے 60سالہ تدریسی تجربہ سے مجھے علم ہوا ہے کہ جب اس انداز سے مسائل پر بات کی جائے جن کا دور حاضر سے تعلق ہو اور جو قابل فہم ہو تو لوگ سنیں گے ۔