الیکٹرانک ووٹنگ مشین دھاندلی کرنے کا جدید طریقہ ہے، ثمر ہارون بلور

پشاور:عوامی نیشنل پارٹی نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین دھاندلی کا نیا اور ماڈرن طریقہ ہے، الیکشن کمیشن الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر اعتراضات اٹھائے ہیں، الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو بنانے، سٹور کرنے اور فراہمی کیلئے 75ارب روپے درکار ہیں۔ پشاور پریس کلب میں انفارمیشن کمیٹی کے اراکین رحمت علی خان، تیمورباز خان اور حامد طوفان کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے اے این پی خیبرپختونخوا کی ترجمان ثمرہارون بلور کا کہنا تھا کہ 2023 انتخابات کیلئے آج سے ہر روز3000 مشینیں بنانی ہوں گی،آرٹی ایس کا تجربہ پچھلے انتخابات میں ناکام ہوچکا ہے۔وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی کے مطابق 45 سیکنڈز میں پولنگ کے بعد نتائج دیے جائیں گے۔ جو ڈیٹا سٹور کیا جارہا ہے اس میں شفافیت کی ضرورت ہے، ڈیٹا کو شناختی کارڈ کے ساتھ جوڑا جائے تاکہ شفافیت برقرار رہے۔ ثمرہارون بلور نے کہا کہ اگر حکومت واقعی سنجیدہ ہے تو کنٹونمنٹ انتخابات میں یہ تجربہ کروالیں، اس سسٹم کو چلانے کیلئے تین سے پانچ لاکھ لوگوں کو تربیت دینی ہوگی، ٹیکنیکل سٹاف اس سے الگ ہوگا، اگر مشین خراب ہوجائے تو انکے لئے الگ لوگ چاہئیے ہوں گے، ان کا مزید کہنا تھا کہ دنیا کے 134 جمہوری ممالک ہیں، ان میں سے صرف 8 ممالک میں ای وی ایم کے ذریعے انتخابات ہوتے ہیں۔ کیا ہم اتنے ایڈوانس ہوگئے، مسائل ختم ہوگئے کہ ہم 9واں ملک بن جائے؟ اے این پی دھاندلی کے اس نئے نظام کو مسترد کرتی ہے اور ایوان کے اندر، باہر اس نظام کے خلاف ہر حد تک جائیں گی۔ اگر واقعی حکومت سنجیدہ ہیں تو تمام سٹیک ہولڈرز سے بات چیت کی جائے۔ پارلیمنٹ کو نظرانداز کرکے آرڈیننسز جاری کئے جارہے ہیں۔ کنٹونمنٹ بورڈ انتخابات بارے ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے اراکین نہ صرف ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کررہے ہیں بلکہ مخالف امیدواروں کے کیمپس پر حملے بھی کررہی ہیں۔ پی ٹی آئی کے ایم پی اے و ایم این اے ترقیاتی فنڈز کا بے دریغ استعمال کررہے ہیں اور عوام کو لالچ دے کر انتخابی مہم چلارہے ہیں۔ پی ٹی آئی کی تین سالہ کارکردگی بارے ان کا کہنا تھا کہ عوام کو ریلیف دینے کی بجائے بربادی کا سامنا کرنا پڑا، تین سالوں میں چینی کی قیمتوں میں 23فیصد، گندم کی قیمت میں 15 فیصد اضافہ ہوا، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 31 فیصد،بجلی کی قیمتوں میں 40 فیصد اضافہ ہوا، 2018 میں گردشی قرضہ 1148 ارب سے 2.5 کھرب تک پہنچ چکا ہے، افراط زر کی شرح 11اعشاریہ 9 تک پہنچی، کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں 11 اعشاریہ پانچ فیصد اضافہ ہوا، جی ڈی پی کی شرح نمو 5اعشاریہ 5 سے منفی صفر اعشاریہ چار تک پہنچایا گیا۔