پاکستان دنیا میں آبادی کے لحاظ سےپانچویں نمبر پر آگیا ہے،رفت اللہ اورکزئی

مردان:پاکستان دنیا میں آبادی کے لحاظ سے اب چھٹے نمبر سے پانچویں نمبر پر آگیا ۔ ملک کی آبادی گزشتہ سات دہائیوں کے دوران ناقابل یقین حد تک تیز رفتار اضافے سے تقریبا چھ گنا ذیادہ ہوچکی ہے ۔ عالمی آبادی اور اس میں تبدیلیوں پر نگاہ رکھنے والی ایک غیر سرکاری بین الاقوامی ویب سائٹ کنٹری میٹرز ڈاٹ انفو کی ڈیٹا بیس کے مطابق پاکستان میں گزشتہ برس 60 لاکھ پچاس ہزار زندہ بچے پیدا ہوئے ۔ شعبہ صحافت سے تعلق رکھنے والے لوگو ں کی ذمہ داری ہے ان صورتحال سے قوم کو اگاہ کریں کیونکہ یہ پاکستان کے لئے کسی ایٹم بم سے کم نہیں ۔ ان خیالات کا آظہار رہنما فیملی پلاننگ ایسوسی ایشن آف پاکستان مردان آفس کے زیر اہتمام جاپان ٹرسٹ فنڈز کی تعاون سے صحافیوں کے دوروزہ ٹریننگ کے دوران مردان شیرگڑھ، رستم اور نوشہرہ کے صحافیوں کو عملی تربیت دیتے ہوئے سینئر صحافی رفت اللہ اورکزئی نے کیا ۔ انہوں نے کہا کہ صحافی کی حثیت سے ہمیں ملک کے نیشنل انٹرسٹ کو سمجھنا چاہئیے اور اپنی رپورٹنگ میں ان تمام امور کی رپورٹنگ بہت ذمہ داری کے ساتھ کریں اور معاشرے میں قائم غلط قسم کے رسم ورواج اور عقائد کے برعکس لوگو ں کو صحیح معلومات فراہم کریں ۔ ٹریننگ ورکشاپ سے رہنماء تنظیم کے ڈائریکٹر محمد بلال خان ، پروگرام منیجر سہیل اقبال کاکاخیل، پروجیکٹ کوارڈینٹر صائقہ عثمان،عابد علی ، محمدشاہد خان ودیگر نے بھی خطاب کیا ۔ انہوں نے کہا کہ عورتوں اور لڑکیوں پر کیے جانے والے تشدد کے نفسیاتی، جنسی اور تولیدی صحت کے حوالے سے منفی نتائج انھیں اپنی زندگی کے ہر مرحلے پر متاثر کرتے ہیں، انھوں نے مزید کہا کہ گزشتہ برس ساٹھ لاک پچاس ہزار زندہ بچے پید ا ہوئے ۔جو ساڑھے سولہ ہزارایک دن بنتی ہے ۔ یا تقریبا سات سو فی گھنٹہ یعنی ایک منٹ میں 11 بچے اور تقریبا ہر پانچ سکنڈ بعد ملک کی آبادی میں ایک نئے شہری کا اضافہ ہو رہا ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ پہلے ہی لڑکیوں کو ابتدا ہی سے تعلیم سے دور رکھا جاتا ہے، ان کے کالج اور یونیورسٹی جانے کے راستے بھی مسدود ہو جاتے ہیں، جس کے بعد وہ اقتصادیات میں حصہ لینے کے بجائے گھر کی ہوکر رہ جاتی ہیں، آبادی کی اس تیز رفتاری میں عورتوں کی صنفی تشدد اور غیر معیاری تولیدی صحت جیسے اسباب کا پیش خیمہ ہے ، مقررین نے کہا کہ لاتعداد مسائل اور انسانیت سوز سلوک کے باجود خواتین خود کو معاشرے کا اہم فرد شمار کروانے میں مصروف عمل ہیں، وہ تمام تر غیر انسانی جسمانی، نفسیاتی اور سماجی سلوک کے باجود اپنے خاندان کی پرورش کررہی ہیں اور نئی نسل کی نشوونما کیلئے اپنی بساط سے بڑھ کر کام کررہی ہیں۔مگر آبادی پر کنٹرول لانا ہوگی ۔ انھوں نے کہا کہ معاشرے کے ہر فرد خصوصاًً صحافت سے وابسطہ لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ خواتین کے خلاف ہر قسم کے تشدد اور ہراسانی کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے اپنے معاشرے میں سدھار لانا چاہئے۔ خاص طورپر لڑکوں کو ایسی تعلیم و تربیت دینی چاہئے کہ وہ خواتین اور لڑکیوں کا نہ صرف احترام اور انھیں سپورٹ کریں بلکہ معاشرے میں آسانی اور اپنی مرضی سے زندگی گزارنے میں ان کی مدد کریں۔